لاڈلے اِن، پیپلز پارٹی آؤٹ؛ جمورا کمپنی کے کرتب بلا روک ٹوک جاری ہیں

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا بننا نہایت اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سرزمینِ بے آئین کو آئین دینے کے ساتھ ساتھ باکمال کارکردگی سے ’’کن فیکون‘‘ جیسے اختیارات کے حامل تصور کیے جانے والے مُقتَدَرِین کے مکمل اقتدار کو گزند پہنچائی تو ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے ہٹا دیا گیا اور اُن کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے غیر جمہوری اور نالائق ترین لوگوں کو سیاست میں لایا گیا۔ ان کی پروموشن کرنے کے ساتھ ساتھ اُنھیں کرپشن کے وافر راستے مہیا کیے گئے اور پھر بلیک میل کر کے اِن کٹھ پتلیوں کو اپنی پسند کی دُھن اور اٗنگلیوں کے اشاروں پر ہمیشہ کے لیے ناچنے کا پابند بنا دیا۔

عدالتوں میں انصاف کی مسند پر بیٹھے عدل کے اُونچے مینار فقط نمائشی تھے، جو پہلے سے ہی مُقتَدَرِین کے تابع فرمان تھے۔ ایوب خان کی صحافی مُکاؤ چھانٹی پروگرام کے بعد مُقتَدَرِین نے بچے کُھچے پروفیشنل صحافیوں کے میڈیا میں ہمیشہ کے لیے دروازے بند کر کے اپنے پالے ہوئے میڈیائی طبلچیوں کے ذریعے نواز شریف کو عظیم سیاسی رہنما کے طور پر تعمیر کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا طوفاں بپا کر دیا، جو پورے کروفر کے ساتھ آج تک جاری ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ایسے سلوک کا حق بھی رکھتی ہے کیونکہ کمپنی کے قابلِ نفرین اشخاص ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کے بعد آج آصف علی زرداری بھی باز نہیں آ رہا جو کمپنی سویلین کنٹرول کے ماتحت کرنے کا اہتمام کرتا ہے، کیری لُوگر بِل ایسے جھنجھٹ ڈال دیتا ہے اور تو اور آئین تک بحال کر کے کمپنی کے لیے بڑے مسائل کھڑے کر دیتا ہے۔

اپنے اقتدار کے دوران ہمالیائی جائیداد بنانے والے نواز شریف کے ساتھ مُقتَدَرِین کی جمُورا مینوفیکچرر کمپنی کا کچھ بگڑاؤ شروع ہوا تو بیک اَپ کے طور پر عمران خان کو پروڈیوس کر لیا گیا۔ اپنے میڈیائی لشکر کا رُخ اسے ہیرو بنانے پر لگا دیا اور سب سیاسی آوارہ گردوں کو بھی اِس کی پارٹی میں بھیج دیا گیا۔ ساری عمر اپنے تن من کا خرچہ بھیک اور چندے سے پورے کرنے والے عمران خان کے سر پر صادق و امین کا تاج سجا کر قوم کا مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ موصوف اپنے پروفیشن میں اتنا مہان ہے کہ شریفین سے بھی جھوٹے حلف ناموں پر قومی خزانے سے بھیک کھری کرتا رہا۔ موصوف کے لیے میڈیائی تشہیر کے ذریعے دولے شاہی چوہوں کی ایسی ذہنی نس بندی کی گئی کہ آج وہ کوئی دلیل سنتے ہیں اور نہ ہی کوئی حقائق تسلیم کرتے ہیں۔

کذابِ اعظم عمران خان کی بَک بَک میں قے کی کثرت سے کمپنی کا گھر انتہائی پراگندہ ہونے اور اس کے نکمے پن سے تنگ آ کر ‘کم لگانا اور زیادہ کھانا’ کے اصول پر کاربند آل شریفیہ سے ایک بار پھر سے رجوع کر لیا گیا ہے۔ جن پالتو میڈیائی خدمت گاروں نے احکامات کے باوجود عمرانڈُو پن کا کچھ بڑھ کر مظاہرہ کیا تو اِن کے سارے جِن نکال دیے گئے ہیں۔ اب نواز شریف کے حق میں ذہن سازی کے نئے احکامات کے مطابق میڈیائی طبلچیوں نے اپنے طبلے کَس لیے ہیں۔ کمپنی کے دیے گئے بیانیے کا اِن پر پاؤڈر مل رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں یہ میڈیائی فنکار گھنگرو باندھ کر اپنی تا تا تھئیا کو عروج پر لے جائیں گے۔ نئی پالیسی کے مطابق عمران خان کی بجائے نواز شریف کے حق میں جعلی سرویز شائع کرنے کے ساتھ ساتھ آنجناب کو امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر کے طور پر منوایا جائے گا۔ حسب معمول پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف زہریلے قلم گھسائے جائیں گے اور تیزابی زبانیں چلائی جائیں گی۔ 

سزا یافتہ اشتہاری مجرم نواز شریف کو لندن سے ہی وزیرِ اعظم بنانے کے  لیے کنگھی پٹی کر کے لایا گیا ہے۔ جو یقینی طور اپنے سمدھی اسحٰق ڈار کے ساتھ مل کر مُلکی معیشت کے ساتھ وہی کچھ کرے گا جو وہ لندن سے بیٹھ کر پچھلے سولہ مہینے کرتا رہا ہے۔ نواز شریف کے لیے قانون موم کی ناک اور ضابطے پاؤں کے جُوتے بنا دیے گئے ہیں۔ ماحول سازگار بنا دیا گیا ہے اور اس کی تمام سزائیں تیز رفتاری سے معاف کی جا رہی ہیں تاکہ نواز شریف کی انتخابات میں شمولیت محفوظ کی جا سکے۔ نواز شریف کی محبت میں سرتاپا اندھا دُھند غرق کمپنی بھی شاید غدارِ وطن ضیاءالحق کی سچی پیروکار ہے جو کہا کرتا تھا کہ الیکشن کا عمل بے سود ہے، جب تک مثبت نتائج حاصل نہ ہوں۔

یہ وہی نواز شریف ہے جو کئی بار اپنے معنوی باپ ضیاءالحق کو بُھول جانے کی ایکٹنگ کر چکا، ذوالفقار علی بھٹو کو ہیرو اور شہید مان چکا، اپنے بدبُودار کرتوتوں پر قوم کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو شہید اور آصف علی زرداری سے بارہا معافیاں مانگ چکا۔ لیکن حقیقت میں یہ آج بھی وہیں کھڑا ہے، جہاں یہ 1981ء میں کھڑا تھا۔

ساری عمر کمپنی کی چاکری کرنے والے نواز شریف نے آتے ہی اپنے آپ کو مزید ننگا کرنے کے ساتھ ساتھ کمپنی کے کرتا دھرتاؤں کے چہروں سے بھی نقاب اُلٹ دیے ہیں لیکن وطن عزیز کی حد درجہ درگت بنانے والی آئین و قانون اور اخلاقیات سے عاری کمپنی کے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے کیونکہ اس وقت اِن کے پاس نواز شریف اور عمران خان کی صورت میں دو جمُورے لاڈلے موجود ہیں، جو بوقت ضرورت باری باری استعمال کیے جا سکتے ہیں اور اِن کٹھ پُتلیوں کو راج سِنگھاسَن پر سجا کر کُھل کھیلنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی۔

آئین و قانون کو جُوتے کی نوک پر رکھنے والی کمپنی کی پالیسی بُکس میں آئین، جمہوریت، دفاع اور معیشت کی مضبوطی کا ریکارڈ رکھنے اور اقوام عالم میں پاکستان کو سر بلند کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ادوار میں کمپنی حکومت کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے اور اپنی ساری توانائیاں حکومت کی مُشکیں کسنے پر صرف کرتی ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ عدالتوں کو بھی پروپیگنڈہ سیلز بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کمپنی کی طرف سے لاڈلوں کے حکومتی ادوار میں ہر محاذ پر مکمل مدد مہیا ہوتی ہے۔ عدلیہ اور میڈیا رفیق کار ہوتا ہے لیکن نااہل لاڈلے ہر طرح کی سہولت کاری کے باوجود وطن عزیز کا پہلے سے بڑھ کر بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔

لاڈلوں کو جیلوں میں ہر قسم کی سہولیات میسر ہوتی ہیں اور ہر فرمائش پوری ہوتی ہے لیکن کبھی بھول کر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو قانونی حقوق بھی نہ دیے بلکہ اُلٹا بغیر کسی جُرم کے سُولی پر لٹکا دیا، جان لے لی اور عمر قید سے زیادہ عرصہ پُر تشدد قید میں رکھا۔

اب یہ بات ہرگز پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ دھتکارے جانے پر لاڈلوں کو بُھولے اسباق یاد کروانے کے لیے نااہل کیا جاتا ہے۔ لاڈلے کے توبہ تائب ہونے کے بعد کمپنی پھر سے آئین و قانون پر ننگا ناچ کر اُنھیں بحال کرتی ہے۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے کہ اگر نواز شریف کی خدمات احکامات کے عین مطابق نہ رہیں اور عمران خان کی طرف سے خدمات کی بڑھ کر آفرز آئیں تو موصوف کی واپسی کے امکانات مکمل طور روشن ہیں۔

جمُورا مینوفیکچرر کمپنی کی طرف سے غیر جانبدار صحافیوں کی میڈیا میں بندش اور اپنی صحافتی پنیری کی بدولت اس وقت وطنِ عزیز میں 99٪ صحافی نُونی ہیں یا پھر عمرانڈُو، جن کے ہاتھوں میں دولے شاہی چوہوں کے دماغوں کا مکمل کنٹرول ہے، اِن صحافتی طبلچیوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ثابت شدہ جھوٹے الزامات کو روزِ روشن کی طرح واضح سچ کے طور پر اِنھیں ازبر کرایا ہوا ہے۔ جنھیں وہ بار بار دُہرا کر اپنا ایمان تازہ کرتے ہیں. اِس وقت آئین پاکستان کے مطابق دونوں لاڈلے سرٹیفائیڈ چور اور نااہل ہیں لیکن ہر طرح کے جھوٹے مقدمات میں باعزت بری ہونے والی پی پی پی کی لیڈرشپ کو برین واشڈ دولے شاہی چوہے بے تکان کرپٹ کہتے ہیں۔

ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ نُون لیگ اور پی ٹی آئی میں تقسیم ذہنی نس بندی کے شکار کارکنان اپنے رہنماؤں کی سلیکشن کے بارے میں اپنے ضمیروں کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے کیونکہ دونوں کی سلیکشن آئین و قانون اور اخلاقیات کو روند کر کی جاتی ہے۔ پھر وہ کیسے ایک کو ٹھیک اور دوسرے کو غلط کہتے ہیں۔ خدا ہی سمجھے تو سمجھے بندہ ان شعور سے محروم قبیلے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

ہماری یہ خام خیالی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی کہ ہم ہر بار سوچتے ہیں کہ بہت ہو گیا اب پاکستان کی اس سے بڑھ کر بربادی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اپنے تئیں اپنی جیب میں دنیا کے ہر مسئلے کا امرت دھارا حل رکھنے والی کمپنی اب اپنی حرکتوں سے باز آ جائے گی، عوام کو فیصلے کرنے کا حق دے گی، جس کی وجہ جمہوریت اپنا راستہ بنا کر ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دے گی لیکن کمپنی کی طرف سے جمہوریت میں مسلسل زہر ملانے سے وطن عزیز پر حالتِ نزع طاری ہے۔ کمپنی باز نہ آئی تو مریض کی موت یقینی ہے۔

کیا جنرل باجوہ نے واقعی آصف علی زرداری کو این آر او دیا تھا؟

تحریر: امام بخش

سینئر صحافی جاوید چوہدری جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرنے کے بعد اپنے 29 دسمبر 2023ء کے کالم میں رقم طراز ہیں:

’’کیا جنرل باجوہ نے اپنے دور میں کسی کو این آر او دیا؟ اس کا سیدھا سادہ جواب ہے جی ہاں جنرل باجوہ نے دو بار این آر او دیا تھا، پہلا این آر او 2017 میں عمران خان کو دیا گیا اور دوسرا عمران خان کے حکم پر 2021 میں آصف علی زرداری کو دیا گیا تھا۔”

جنرل باجوہ اور عمران خان کے زور دار عشق کے بارے میں جاوید چوہدری کے انکشافات اِس سے قبل بھی کوئی راز نہ تھے کہ کیسے واضح ثبوتوں کے باوجود غیر قانونی بنی گالا محل کو جائز کرایا گیا اور نااہلی کیس میں عمران خان کو صادق و امین قرار دلوا کر این آر او دینے کے علاوہ جہانگیر ترین کو بَلی چڑھایا گیا۔

1987ء سے قابلِ تعزیر سمجھے جانے والے آصف علی زرداری کے بارے میں جاوید چوہدری کا انکشاف حیرت زدہ کر دینے والا ہے کہ جنرل باجوہ نے آصف علی زرداری کے مقدمات اِسلام آباد سے کراچی منتقل کر کے این آر او دیا تھا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ ہو گئی۔

آج کل کچھ صحافیوں کے ذریعے جنرل باجوہ اپنے احسانات کے واقعات عوام تک بہم پہنچا رہے ہیں کہ کیسے اِس تِشنہ محبت نے فردِ واحد کے طور پر کُھلے دل کے ساتھ اپنے دلبروں پر محبتیں نچھاور کرتے ہوئے قطعاً نہیں سوچا کہ ان کی نوازشات کی پاکستان کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جاوید چوہدری کے مطابق جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ اگر وہ پانچ فیصد بھی حقائق بیان کر دیں تو میر جعفر، میر صادق، غدار، جانور اور سازشی کہنے والے ان کے پیاروں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔

یاد رہے یہ وہی لاڈلے عمران خان ہیں، جو جنرل باجوہ کو باس باس کہہ کر تاحیات ایکسٹینشن لینے کی درخواستیں کر چکے ہیں۔ یہ درخواستیں امریکی سائفر آنے کے بعد کر رہے تھے (ویسے ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہائبرڈ رجیم کے دوران چین، سعودی عرب، ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا سے آئے سائفرز پبلک ہو جائیں تو اعظم خان کی ملمع سازی کے بغیر ہی حشر برپا ہو جائے)۔

آئین کیا ہے اور آرمی چیف کے اپنے فرائض منصبی کیا ہوتے ہیں؟ یہ اپنے حلف کی "عین پاسداری” کرنے والے جنرل باجوہ اور عظیم صحافی جاوید چوہدری سے بہتر کون جانتا ہو گا؟

جنرل باجوہ کی ہمالیائی "اِخلاص مندی” کو دیکھ کر عش عش کر اُٹھنے کو دل کرتا ہے کہ وہ کس طرح عوام، پی ڈی ایم اور عمران خان کے علاوہ فوج میں اپنے کولیگز کے ساتھ وعدہ وفا نبھاتے رہے اور اپنی مزید عزت میں اضافے کے لیے آج بھی سکون سے نہیں بیٹھ رہے۔

جنرل باجوہ اور عمران خان کی بے مثال داستانِ محبت پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن اس کالم میں ہم فقط آصف علی زرداری کے بارے میں چند حقائق بیان کرنا چاہتے ہیں، جن کے چشم دید گواہ سارے پاکستانی عوام ہیں۔

پی ڈی ایم بنانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف تھا کہ عمران خان کی حکومت کو آئینی طریقے سے تحریک عدم کے ذریعے ہٹایا جائے۔ مسلم لیگ (ن)  نے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کو شریف خاندان کی جاگیر بنا لیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیوں کا سارا زور پارلیمنٹ سے استعفے دینے پر تھا۔ پی پی پی کا مؤقف تھا کہ استعفے آخری آپشن ہونا چاہیے۔ استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی کے واضح مؤقف کے علم کے باوجود مسلم لیگ (ن)  اور مولانا فضل الرحمٰن نے لانگ مارچ کو استعفوں سے نتھی کر دیا۔

انہی دنوں پی ڈی ایم کے  اجلاس سے آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو کہا کہ میاں صاحب براہ مہربانی پاکستان تشریف لائیں، لڑنا ہے تو ہم سب کو جیل جانا ہو گا۔ اگر آپ جنگ کے لیے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو، استعفے دینے ہوں یا عدم اعتماد کا معاملہ، آپ کو پہلے وطن واپس آنا ہو گا۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔ ہم جمہوری لوگ ہیں، جو پہاڑوں پر سے نہیں بلکہ پارلیمان میں رہ کر لڑتے ہیں۔ مجھے کسی کا کوئی ڈر نہیں۔ تاہم جدوجہد ذاتی عناد کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونی چاہیے۔ میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر شاید میرا ڈومیسائل مختلف ہے۔ آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں نے پارلیمان کو اختیارات دیئے۔ ہم  نے اٹھارویں آئینی ترمیم پاس کی اور این ایف سی منظور کیا، جس کی مجھے اور میری پارٹی کو سزا دی گئی۔ ہم اپنی آخری سانس تک جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا انتشار جمہوریت کے دشمنوں کو فائدہ دے گا۔

آصف علی زرداری کے خطاب پر مسلم لیگ (ن)  مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگی اور پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ آصف علی زرداری بُزدلی دِکھا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے مل گئی ہے۔

پروپیگنڈہ کرنے والے یہ بھول گئے کہ جس آصف علی زرداری نے اپنی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ایسی شریکِ حیات گنوائی، بے گناہ عمر قید کاٹی اور قدم قدم پر اکلوتے بیٹے کی نعش اُٹھانے کی دھمکیاں سہی ہیں۔ پچھلے پینتیس سالوں سے جُھوٹے مقدمات کا سینہ تان کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ آئینی اداروں پر حملہ نہیں کرتے اور جاگ پنجابی جاگ کی بجائے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ہر قسم کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور سب سے اہم بات کہ اپنی ذاتی رنجشیں پس پشت ڈال کر فقط ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن پروپیگنڈہ کرنے والوں کی نظر میں آصف علی زرداری اِنتہائی بُزدل اور کمزور آدمی ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑ سکتے۔ اِس کے بالکل برعکس اُن کی نظر میں نواز شریف اپنے دونوں بیٹوں کو سینے سے لگائے عدالت سے مفرور اشتہاری ہونے کے باوجود شیر نڈر ہیں، جو مشکل وقت میں آئین و قانون کو لتاڑتے اور مارشل لاء کو جائز تسلیم کرتے ہوئے راتوں رات جیل سے رہا ہو کر پورے خاندان کے ساتھ سرُور پیلس اور پارک لین کے پُرتعیش ایون فیلڈ فلیٹس میں ریسٹ کرنے چلے جاتے ہیں۔ ببر شیر کہلانے کا یہ شوقین لاڈلے پاکستان واپس تب آتے ہیں جب عدالتوں سے سب سزائیں ختم ہونے کی گارنٹی ملنے کے ساتھ ساتھ اِقتدار کا تخت سَج چکا ہوتا ہے۔ پروپیگنڈسٹ یہ بھی بھول گئے کہ شریفین بارہا آصف علی زرداری سے جُھوٹے مقدمات بنانے اور کردار کشی کرنے پر معافیاں مانگتے آئے ہیں۔ یہ آصف علی زرداری کا ہی ظرف ہے جو انھیں معاف کرتے آ رہے ہیں۔

اس کے بعد شاہد خاقان عباسی نے پی ڈی ایم کو توڑنے کے لیے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس بھیج دیا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے راہیں جُدا ہو گئیں۔

بعد ازاں، پی ڈی ایم میں باقی رہ جانے والی پارٹیاں استعفے دینے سے پیچھے ہٹ گئیں اور ناکام و نامراد واپس لوٹنے پر اُنھیں پیپلز پارٹی کا آئینی مؤقف ماننا پڑا اور عمران خان کو پارلیمنٹ کے ذریعے وزارت عظمی کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔

اب دیکھتے ہیں کہ آصف علی زرداری کے مقدمات اِسلام آباد سے کراچی منتقل ہونے کے بارے میں کتنی صداقت ہے۔ ہائبرڈ رجیم کے دور میں کسی دلیل و ثبوت کے بغیر فقط الزامات لگا کر مقدمات بنا کر آصف علی زرداری اور اُن کی بہن فریال تالپور کو پابند سلاسل کر دیا گیا، جہاں بیمار آصف علی زرداری کو کوئی سہولت نہیں دی گئی، حتیٰ کہ دوائیوں کے لیے درکار فریج تک مہیا نہ کیا گیا۔ پوری حکومتی طاقت کے باوجود رتی برابر کرپشن ثابت نہ ہوئی اور آصف علی زرداری کی ضمانت چھ ماہ بعد ہوئی۔ اِس کے بعد بھی آصف علی زرداری کا نام مسلسل ای سی ایل میں رہا۔ اِس دوران جنرل باجوہ آصف علی زرداری کو ملک چھوڑنے کا بار بار کہتے رہے، جسے آصف علی زرداری  نے مسترد کر دیا۔

بنیادی طور پر آصف علی زرداری کے مقدمات سندھ سے اسلام آباد مقدمات منتقل کرنا ایک غیر آئینی عمل تھا۔ اگر وہی مقدمات جائز طور پر کراچی منتقل ہو جاتے تو اعتراض کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن آج تک آصف علی زرداری  کا ایک بھی مقدمہ کراچی منتقل نہیں ہوا اور وہ اسلام آباد میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اگر مقدمات کراچی منتقل نہیں ہوئے تو آصف علی زرداری کو این آر او کیسے ملا تھا؟

یہ بات بھی حیرت زدہ کر دینی والی ہے کہ جنرل باجوہ اور ان کے ساتھی صحافی نواز شریف  کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ جاوید چوہدری نے اپنے27 دسمبر 2022ء کے کالم میں فقط اتنا لکھا ہے کہ جنرل باجوہ بار بار ذکر کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے انھیں ہمیشہ بہت عزت دی۔ وہ میاں نواز شریف کے خانساماں کی اچھی چائے کو بھی بہت مِس کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ این آر او نہ دینے کی تکرار سے قوم کے کان پکا دینے والے عمران خان  کے دورِ حکومت میں سزا یافتہ مُجرم نواز شریف کو جیل سے آزاد کرنے کے بعد وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ لندن روانہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ سزا یافتہ مجرمہ مریم نواز بھی اپنے والد کی تیمار داری کے لیے ضمانت پر رہا ہوئیں۔ ان کے والد محترم تو لندن چلے گئے لیکن آٹھ ہفتے کی ضمانت کے بعد وہیں لندن میں جم کر بیٹھ گئے لیکن مریم نواز پاکستان میں موجود ہونے کے باوجود واپس جیل نہیں بھیجی گئیں۔ اس وقت نواز شریف مفرور اِشتہاری مُجرم ہیں، جو دیگر سزاؤں کے ساتھ ساتھ دس سال کے لیے پارلیمنٹ سے نااہل ہیں۔ اس سے قبل بھی موصوف تاحیات نااہل ہوئے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوبارہ محبت کے بندھن میں بندھنے کے بعد یہ سزا جھٹ سے ختم کر دی گئی تھی۔ اب محبت کا دھارا پھر سے بہہ رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ ایک بار پھر نواز شریف اور مریم نواز کی سزائیں معاف ہو جائیں گی۔ جنرل باجوہ کے حمایتی صحافیوں کا طرزِعمل بھی واضح طور پر اس امر کی گواہی دے رہا ہے۔

 آصف علی زرداری کو این آر او دینے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والوں کے نزدیک شاید یہ جنرل باجوہ کا نواز شریف پر احسان تھا اور نہ ہی این آر او۔

جنوبی پنجاب صوبہ: من حرامی تے حُجتاں ہزار!

تحریر: امام بخش

تحریکِ اِنصاف کے سرکردہ رہنما شاہ محمود قریشی نے 9 اپریل 2021ء کو برملا اعتراف کیا ہے کہ ہمارے پاس اکثریت نہیں، اِس لیے جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ممکن نہیں۔ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام تحریکِ اِنصاف کے منشور میں شامل ہے، حکومت نے سیکرٹریٹ قائم کر کے جنوبی پنجاب صوبے کی سیڑھی رکھ دی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نُون لیگ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے مخلص نہیں ہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے دورِ اِقتدار میں جنوبی پنجاب صوبہ بنا سکتی تھیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

2018ء کے الیکشنز میں تحریکِ اِنصاف کا وعدہ تھا کہ اگر اُن کی حکومت آ گئی تو پہلے 100 دنوں میں وہ جنوبی پنجاب صوبہ بنا دیں گے۔ لیکن اب تین سال بعد یہ یُوٹرنی ٹولا اعتراف فرما رہا ہے کہ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ یہ آصف علی زرداری ہے، جس نے نصف صدی سے جنوبی پنجاب کے سوئے ہوئے "مطمئن غیرت مندوں” کو جگایا اور اُن کے لیے علیحدہ صُوبے کی مہم چلائی۔ یہ مہم خالی پیلی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں تھی بلکہ 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مخالفت کے باوجود جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے کا ترمیمی بِل سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے پاس کروانے کا مشکل مرحلہ طے کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ترمیمی بِل کو قومی اسمبلی میں بھی پیش کیا تھا لیکن نُون لیگ نے بھرپور مخالفت کی اور دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی یہ بِل پاس نہ کروا سکی۔ جنوبی پنجاب کے صُوبے کا معاملہ جب پنجاب اسمبلی میں آیا تو وہاں اکثریت رکھنے والی نُون لیگ سامنے رُکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے صوبے کا ترمیمی بِل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا لیکن ٹیبل نہ ہو سکا۔ نُون لیگ نے جنوبی پنجاب میں ایک کے بجائے دو صوبے بنانے کے لیے اپنے ترمیمی بِلز پیش کر دیئے، پاکستان پیپلز پارٹی نے دو صوبوں کے بِلز میں کسی قسم کی مخاصمت کے بغیر عوام کے مفاد کے لیے نُون لیگ کا ساتھ دیا اور یہ دونوں بِلز پاس ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اِس کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالہ سے پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بار بار قردادیں پیش کیں لیکن نُون لیگ کی بھرپور مخالفت کی وجہ سے وہ ٹیبل نہ ہو سکیں۔ اِس طرح 2013ء کے الیکشن تک نُون لیگ نے یہ معاملہ حیلے بہانوں سے اَٹکائی رکھا۔ اِس طرح قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بِل کی حمایت میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکنے پر پاکستان پیپلز پارٹی اپنی حتی المقدور کوششوں کے باوجود صُوبہ جنوبی پنجاب بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

یہاں اِس بات کا ذکر ضروری ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے ملتان میں صنعت کاروں سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ سرائیکی صوبے کی مالیات کے لیے سرائیکی بنک ضروری ہے۔ اِس لیے ہم ڈیرہ غازیخان اور ملتان میں سرائیکی بنک کے قیام کے سلسلے میں اِقدامات کر رہے ہیں لیکن سرائیکی بنک کے قیام کی تجویز بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول ٹھہری۔

2013ء کے انتخابات میں نُون لیگ نے اپنے منشور میں جنوبی پنجاب، بہاولپور اور ہزارہ کے الگ الگ صوبے شامل کیے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد نُون لیگ کی پنجاب اور مرکز میں حکومت بنی مگر نُونیوں نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے رتی برابر عمل کرنے کی بجائے اُلٹا اِس ایشو پر سرائیکی اور پنجابی زبان بولنے والوں میں تفرقہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی حالانکہ علیحدہ صوبہ بننے میں وہاں کے رہنے والے سبھی لوگوں کا فائدہ ہے۔

یہ واضح رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے منشور میں کوئی نیا صوبہ بنانا شامل نہیں تھا۔ پی ٹی آئی نے 2018ء کے انتخابات میں اپنے منشور میں جنوبی پنجاب صوبہ اس وقت شامل کیا جب اپریل 2018ء میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے درجن بھر لوٹے سیاست دان خسرو بختیار کی قیادت میں پی ٹی آئی میں اس ڈرامہ شرط پر شامل ہوئے کہ جنوبی پنجاب صوبہ پی ٹی آئی حکومت 100 دنوں میں بنائے گی۔ موجودہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار بھی 2018ء کے انتخابات سے چند ماہ پہلے تک نُون لیگ میں شامل تھا۔

اب پی ٹی آئی کے اعترافِ ناکامی کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آئین کے تحت نیا صوبہ بنانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن پی ٹی آئی کو چاہیئے تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے آتی تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا کیونکہ اس وقت جنوبی پنجاب صوبہ بنانا تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے، اِس طرح جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں جنوبی پنجاب کے صوبہ بننے کے بِل کے لیے حکومت کا ساتھ نہ دیتی وہ عوام کے سامنے خود بخود ایکسپوز ہو جاتی لیکن پی ٹی آئی اس طرف جانے کی بجائے خود ایکسپوز ہو چکی ہے لیکن اپنے من حرامی کی حُجتیں فرما کر عوام کو بے وقوف بنانے پر مُصر ہے۔

اب حقائق سامنے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے کون مخلص ہے اور کون منافقت کر رہا ہے، "پاکستان کھپے” کا نعرہ لگانے والا آصف علی زرداری، جس نے صوبہ بنانے کی مہم کو مہمیز کیا، سینیٹ سے صوبہ بنانے کا ترمیمی بِل پاس کروایا اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں بھی ترمیمی بِل پاس کروانے کی بھرپور کوششیں کیں؟ "جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نُوں لگ گیا داغ” کا نعرہ لگانے اور لسانیت و صوبائیت کا تفرقہ پھیلانے والا نواز شریف، جس نے صُوبہ جنوبی پنجاب بننے کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کیں؟ یا پھر سرائیکی باپ کا بیٹا لیکن سرائیکی کہلانے پر اِحساس کمتری کا شکار ہونے والا وزیر اعظم کے طور پر اپنے نام کے ساتھ لفظ نیازی کی مُمانَعَت کا سرکلر جاری کرنے والا عمران احمد خان نیازی، جِس نے 100 دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن پورے تین سال کے عرصے میں یہ معاملہ پارلیمنٹ تک نہیں لایا اور اب یُوٹرن فرما چکا ہے؟

اگر جنوبی پنجاب کے عوام ڈھونگی جمُوروں کے علاوہ اُن چڑھتے سُورج کے پجاری میر جعفروں اور میر صادقوں کو دُھتکارنے کی بجائے چُومیں چاٹیں گے اور جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیں گے تو پھر وہ پچھلی پون صدی کی طرح مستقبل میں بھی تختِ لاہور کے سامنے بَلی چڑھتے رہیں گے۔

فارن فنڈنگ کیس – پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور اہم ثبوت سامنے آ گیا!

تحریر: امام بخش

پاکستان تحریکِ اِنصاف کی ایک اہم دستاویز منظر عام پر آئی ہے، جس کے مطابق اِس پارٹی کے ملازمین ٹیلی فون آپریٹر طاہر اقبال، کمپیوٹر آپریٹر محمد نعمان افضل، اکاؤنٹنٹ محمد ارشد اور پی ٹی آئی کے دفتر کے ہیلپر محمد رفیق کے ذاتی بنک اکاؤنٹس کو پارٹی کے لیے عطیات وصول کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری خزانہ اور مشیر مالیات سراج احمد نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ پارٹی کے مالیاتی بورڈ کی جانب سے ان چاروں ملازمین کو اجازت دی گئی تھی۔

قانونی ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس سے متعلق یہ ثبوت انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جو پی ٹی آئی کو بین کرانے کے لیے اکیلا ہی کافی ہے۔

یہ واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کے قواعد 2002 کے آرٹیکل 4 کی یہ صریح خلاف ورزی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت فرنٹ اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے لیے فنڈز وصول کرے۔ مزید برآں، اِنتخابی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتیں غیر ملکی شہریوں سے فنڈز حاصل نہیں کر سکتیں۔

عمران خان فارن فنڈنگ کیس کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہیں، اس لیے 2014ء سے یہ موصوف اس کیس سے مکمل جان چھڑانے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی گمراہ کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔

یاد رہے کہ 20 جنوری 2021ء کو عمران خان نے ایک لمبی ڈینگ فرما دی تھی کہ فارن فنڈنگ کیس کی اوپن کورٹ سماعت کی جائے کیونکہ پی ٹی آئی کی تمام فنڈنگ قانونی اور ریکارڈ پر ہے۔ اس کے بعد ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ موصوف مسلسل ڈینگتے رہے کہ اگر مجھے خوف ہوتا تو سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کی اوپن سماعت کا نہ کہتا۔ ہمارے پاس 40 ہزار ڈونرز کے ناموں کی فہرست کے ساتھ ساتھ 23 بینک اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ مخالفین آ جائیں، فارن فنڈنگ کیس ٹی وی پر براہ راست دکھایا جائے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور ساری قوم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس نے کہاں سے فنڈ لیا ہے۔

لیکن جب پی ٹی آئی کے بانی رُکن اکبر ایس بابر کی طرف سے الیکشن کمیشن میں درخواست آئی کہ پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگز کے تمام شواہد فراہم کیے جائیں تو عمران خان نے اپنی پارٹی کے وکیل شاہ خاور کے پیچھے چھُپ کر درخواست جمع کروا دی کہ سکروٹنی کمیٹی کی کاروائی قطعاً اوپن نہ کی جائے۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس کیس کے سلسلے میں پی ٹی آئی ایک بار سپریم کورٹ آف پاکستان میں امریکہ سے موصول فنڈنگ کی دستاویزات پیش کر چکی ہے۔ جب ان دستاویزات کی جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ غیر ملکی شہریوں کے ناموں کی جگہ اِنتہائی بھونڈے طریقے سے پاکستانی شہریوں کے نام کاپی پیسٹ کر کے بار بار دہرائے گئے تھے۔ اس پر بے ضمیر بابے رحمتے نے خالی پیلی برہم ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا تھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ عدالت میں جعلی دستاویزات پیش کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے وکیل  نے نہ صرف معذرت کی بلکہ یہ بھی اِقرار کیا کہ انہیں یہ کاغذات کلائنٹ نے دیئے تھے۔

حال ہی میں پی ٹی آئی تسلیم کر چکی ہے کہ اُنھیں غیر قانونی فنڈنگ ہوئی ہے لیکن ساتھ میں چالاکی فرماتے ہوئے اپنی سٹیٹمنٹ میں یہ پخ لگا دی کہ غیر قانونی فنڈنگ کی ساری ذمہ داری امریکی ایجنٹوں کی ہے، جنھوں نے پارٹی کے چئیرمین (عمران خان یعنی کیس کے مرکزی فریق) کو بتائے بغیر ایسا کیا۔ حالانکہ حقائق یہ ہیں کہ "صادق و امین” کے دستخطوں سے ہی دو امریکی آف شور کمپنیاں وجود میں آئیں تھیں اور ان کے ذریعے پارٹی کو فنڈنگ ہوئی ہے۔

یہاں یہ باور کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کیس بیک وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت رہا ہے اور عمران خان واضح ثبوتوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کی وجہ سے سزا سے مسلسل بچتے چلے آ رہے ہیں۔

"صادق و امین” عمران خان فارن فنڈنگ کیس میں 30 بار سٹے آرڈر لینے کے ساتھ ساتھ سات رِٹ پٹیشنز دائر کر چکے ہیں کہ اُن کے خلاف تحقیقات نہ کی جائیں، وہ الیکشن کمیشن میں بار بار فریادیں بھی کر چکے ہیں کہ اُن کے 23 بنک اکاؤنٹس ظاہر نہ کیے جائیں اور وہ عام شہری کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم ایک پھر عرض کریں گے کہ اب یہ بات کنفرم ہے کہ اگر لاڈلے کو بچانے کے لیے ایک بار پھر انصاف کا قتل نہ کیا گیا تو اس کیس میں ڈھونگی "صادق و امین” سزا و جرمانے کے ساتھ تاحیات نااہلی اور سیاسی موت سے کسی صورت میں نہیں بچ سکیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری کے بتائے گئے دھماکہ خیز اِنکشافات سچ ہیں یا جھوٹ؟

رپورٹ: امام بخش

آپ بلاول بھٹو زرداری کو سخت ناپسند کرتے ہیں یا پھر دل و جان سے چاہتے ہیں لیکن پاکستانی ہونے کے ناتے اِن کی 17 ستمبر 2020ء کو پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کی گئی تقریر ضرور سنیں۔ اِس تقریر میں بہت زیادہ پوشیدہ راز طشتِ ازبام ہوئے ہیں۔ یہ تقریر سُننے کے بعد آسانی کے ساتھ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اسٹیبلشمنٹ، حکومت، عدلیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہے؟ اِن کرداروں میں کون آئین و قانون کی پیروی کر رہا ہے اور کون آئین و قانون کو پاؤں تلے روند رہا ہے؟ اِس تقریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کتنی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور وہ اپنا مافی الضمیر جرات و بہادری کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مزیدبرآں، اندھی نفرت اور عقیدت کی عینک اُتار کر جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کے برعکس ایک ذمہ دار شہری کے طور پر یہ تحقیق بھی ضرور کریں کہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سچ پر مبنی ہے یا پھر فقط جھوٹ۔

بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا متن مندرجہ ذیل ہے:

پاکستان پیپلز پارٹی کو شہداء کی جماعت سے یاد کیا جاتا ہے۔ میرے خاندان کو ریاست نے ایک ایک کر کے شہید کیا ہے۔ میرے نانا کو پھانسی پر چڑھایا گیا، میرے ایک ماموں میر مرتضٰی بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر شہید کیا گیا۔ میرے دوسرے ماموں میر شاہ نواز بھٹو، جو ابھی فقط ستائیس سال کے تھے، زہر دے کر شہید کیا گیا۔ میری والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو راولپنڈی میں بم دھماکے سے شہید کیا گیا۔

جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو اُن کے دور میں کافر اور غدار کہتے تھے، وہ آج ہمارے ساتھ ہیں اور وہ انھیں شہید مانتے ہیں۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں۔

وہ لوگ آج ہمارے ساتھ ہیں، جو میری والدہ سے کہتے تھے کہ عورت کی حکمرانی جائز نہیں، اس کے علاوہ وہ لوگ بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو  اُنھیں کرپٹ کہتے تھے، آج وہ لوگ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید مانتے ہیں۔

جو لوگ میرے نانا اور میری والدہ کے ساتھ تھے اور آج بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم اُن لوگوں کے شکر گذار ہیں اور اُن کی جدوجہد کو سلام کرتے ہیں۔

ہم پر حملے ہوتے ہیں اور میڈیا پر ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے شہیدوں کی کردار کشی بھی کی جاتی ہے۔ ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ کبھی ہم کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی ناکام ہوتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہار جیت اَللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ تمام مشکلات کے باوجود ہم اپنے مؤقف اور منشور پر قائم ہیں۔ آج جو ٹوٹی پھوٹی اور کمزور سی جمہوریت، تھوڑی سی میڈیا کی آزادی اور مزدوروں و کسانوں کے حقوق بھلے کاغذوں پر ہی سہی لیکن موجود ہیں۔ یہ سب اس جدوجہد کا نتیجہ ہیں، جو محنت اور قربانیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے دی ہیں۔

آج پاکستان ایک ایسے دور سے گذر رہا ہے جہاں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست میں رہتے ہیں لیکن "ریاست مدینہ” کا یہ حال ہے کہ جس میں ملک کے سب سے مشہور موٹروے پر ایک عورت کے ساتھ اپنے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے لیکن اُس عورت کو تحفظ دلانا جن کی ذمہ داری ہے بلکہ پورے ملک کی عورتوں کو یقین دلانا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، وہ ریپ کرنے والے ملزموں کی بجائے متاثرہ خاتون پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ حیرت یہ ہے جو لوگ متاثرہ خاتون پر سوال اُٹھاتے ہیں، اُن کا دفاع کرنے کے لیے ملک کے وزراء، مشیران، معاونین خصوصی کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم بھی آ جاتے ہیں۔

آپ کو شاید معلوم ہو یا نہ ہو لیکن آج "ریاستِ مدینہ” کی یہ صورت حال ہے کہ پورا ملک بارش اور سیلاب سے متاثر ہے۔ صوبہ سندھ میں پچیس لاکھ متاثرین کے علاوہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں بارش اور سیلاب کے متاثرین موجود ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے گھر اور فصلیں تباہ ہو چکیں ہیں لیکن ہمارے میڈیا پر اِن متاثرین کے لیے آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔2011ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بارش اور سیلاب آیا تھا تو وفاق نے صفِ اوّل کا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وطن کارڈ بھی جاری کیا تھا۔ لیکن آج اس ریاست مدینہ میں سیلاب متاثرین بے یار و مددگار ہیں اور کوئی ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ہم اپنے ملک کو مدینہ کی ریاست کہتے ہیں لیکن ہمیں اہم ترین قانون سازی بھی آزاد ماحول میں نہیں کرنے دی جاتی۔ آج قومی اسمبلی میں جو قانون سازی ہوئی ہے، وہ آئین اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کر کے کی گئی ہے۔ اختلاف رائے رکھنے والوں کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ اسپیکر دوبارہ گنتی کا مطالبہ تک نہیں مانتے۔ اگر ہمارے ووٹ نہیں گنے جائیں گے اور ہماری آواز نہیں سنی جائے گی تو ہمارے ایسی سیاسی جماعتیں بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گی کہ آخر ہم کب تک اس پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست میں بولنے کی آزادی تھی لیکن ہماری ریاست میں قائد حزب اختلاف اور حزب اختلاف کے ارکان کے لیے زیادہ سخت پابندیاں ہیں۔ اور تو اور یہاں تو نام نہاد حکمرانوں کے پاس بھی بولنے کی آزادی نہیں ہے۔

جب ہم مدینہ کی ریاست کی طرف دیکھتے ہیں تو انصاف کے لیے ہم عدالت کی طرف دیکھتے ہیں۔ اِسلام نے ہر مرد و عورت اور مسلم غیر مسلم شہری کو حق دیا ہے لیکن ہمارے نئے پاکستان میں ہر طبقے کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔

جو میڈیا مالکان ہماری جمہوری حکومت کو دھمکی دیتے تھے کہ ہم حکومتیں بناتے ہیں اور ہم ہی حکومتیں گراتے ہیں، وہ آج پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

کل جو اس سے پہلے سلیکٹیڈ ہوتے تھے، دوسری سیاست کے عادی تھے وہ بھی آج انقلاب، انصاف، عوام اور ووٹ کی عزت کے نعرے لگانے پر مجبور ہیں۔

مجھے آج آپ سب (وکلاء تنظیمیں، سیاسی جماعتیں اور میڈیا) کے سامنے ایک شکوہ کرنا ہے، میرے دائیں بائیں بیٹھے سب صاحبان سے میں نے پوچھنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے دوران جب ایک آزادانہ مؤقف پیش کیا تو کیا آپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مؤقف کا ساتھ دیا یا پھر آزاد عدلیہ کے نام پر آپ لوگوں نے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت میں نہ چاہتے ہوئے بھی عدلیہ کو آمرانہ ادارہ بنا دیا؟

میں پوچھنا چاہوں گا کہ دھاندلی، آمریت، سلیکشن، میڈیا اور عدلیہ کی آزادی سب کچھ پانامہ اسکینڈل کے بعد شروع ہوا؟

جب ہم اینٹ سے اینٹ بجانے نکلے تھے تو آپ سب لوگوں نے ہمیں کہا تھا کہ ہم صرف اپنی کرپشن بچانے کے لیے بیانات دیتے ہیں۔

اب جب ہم شور ڈالتے ہے کہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی نشانے پر ہیں تو ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارے ساتھ بہت سی سیاسی جماعتیں اور آوازیں ہیں۔ لیکن ایک وقت تھا جب ہم کہہ رہے تھے کہ  1973ء کے آئین کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے بحال کرنے کی پاداش میں پاکستان پیپلز پارٹی ایسی قومی جماعت کو سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ایک صوبے تک محدود کیا جا رہا ہے تو ہمیں نہیں سنا گیا۔

چارٹر آف ڈیموکریسی پر ہم نے بہت کام کیا تھا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں یہ طے تھا کہ ججز کیسے تعینات ہوں گے اور ایک آئینی عدالت ہو گی، جس میں سب صوبوں کی نمائندگی ہو گی۔ جب موقع تھا اس وقت ہمارا ساتھ نہیں دیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 1973ء کے آئین کی بحالی کے لیے 30 سال تک تحریک چلائی، جس جدوجہد کی وجہ سے وہ شہید ہوئی۔ اٹھارہویں ترمیم میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پارلیمان اور بار کونسل کے نمائندوں کی مشاورت سے ججز کی تعیناتی ہو گی، جسے "اُنھوں” نے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ معزز جوڈیشری ممبران اور سیاسی جماعتوں نے بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا تھا۔

میں سو فیصد متفق ہوں کہ اُنیسویں ترمیم زبردستی پارلیمنٹ سے منظور کروائی گئی تھی۔ ایک ادارے کی طرف سے صاف دھمکی دی گئی تھی۔ دھمکی یہ تھی کہ 1973ء کے آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کو اڑا کر رکھ دیں گے۔ اگر قانون سازی زور اور زبردستی سے کی جائے گی تو اُس قانون سازی اور پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جیسے ہمارا سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کہتا ہے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔

ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور عوام کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارویں ترمیم کو بحال ہونا چاہیے۔ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں عوام کا سب سے زیادہ کردار ہونا چاہیئے۔ اس کے علاوہ بار فورمز، بار کونسل اور جوڈیشری کی شراکت ضروری ہے۔ اُنیسوی ترمیم کالعدم ہونی چاہیئے۔

اگر آپ اس ملک کے ہر سیاستدان کو عدالت، دباؤ اور ڈنڈے کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں تو کوشش کر لیں لیکن یہ کمپنی نہیں چلے گی۔

ہم انسانی حقوق اور آزادی پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ اِس کے بغیر سیاستدان، وکلاء اور صحافی اپنا کام نہیں کر سکتے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کا آج کا جو طریقہ کار ہے یہ میں دو سال کی عمر سے دیکھ رہا ہوں، اپنی والدہ کے ساتھ عدالتوں اور جیلوں کو دو سال کی عمر سے دیکھ رہا ہوں۔ اُن پر کرپشن کے کیا کیا مقدمات نہیں بنائے گئے۔ شکر الحمدللہ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات میں باعزت بری ہوئیں مگر افسوس ہے کہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں تھیں۔

ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ 2020ء میں ریاستِ مدینہ میں آپ ایک کتاب نہیں لکھ سکتے، ایک ٹویٹ نہیں کر سکتے، ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے ممبر کے طور پر آپ آزادی کے ساتھ ایک انٹرویو نہیں دے سکتے ورنہ آپ کا انٹرویو کٹ جائے گا۔ یہ زندہ قوموں کا طریقہ نہیں ہے۔

میری پارٹی اور خاندان نے اب تک بہت قربانیاں دی ہیں۔ اب ہم اپنے خون کا حساب چاہتے ہیں۔ اس خون سے دستور بنا ہے اور ہم نے اس دستور کو بچانا ہے۔

نشانہ 1973ء کا آئین ہو، اٹھارہویں ترمیم ہو، این ایف ایوارڈ ہو، صوبوں کے وسائل ہوں یا پھر عوام کے انسانی حقوق ہوں، پاکستان پیپلز پارٹی ان سب پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

چند روز بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں اس ہائبرڈ رجیم کو جواب دینا پڑے گا۔ پہلے پارلیمنٹ اور پھر ملک کو آزاد کرائیں گے۔

نوٹ: بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ "ماضی کی فاش غلطیوں کا ہمیں اعتراف کرنا چاہیئے۔ پوری قوم معترف ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے خاندان نے یقیناً جمہوریت کے لیے جو قربانیاں دیں، وہ انتہا کی تھیں۔ آپ کو وہ جج بھی یاد ہوں گے، جنہوں نے کہا بھٹو کا فیصلہ دباؤ میں کیا تھا”۔

یاد رہے کہ ماضی میں نواز شریف اور شہباز شریف جھوٹے الزامات لگانے اور مقدمات بنانے پر آصف علی زرداری سے بارہا معافیاں مانگ چکے ہیں۔

عمران خان مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہیں یا پھر غاصب بھارت کے ساتھ؟





تحریر: امام بخش

5 اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم مختار خصوصی حیثیت قرار دینے والے اپنے آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35 اے منسوخ کر دیئے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے ریاست کے درجے ختم کرنے کے علاوہ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا اور دونوں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے تحت چلنے والے علاقے بنا دیئے۔ مزیدبرآں، بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے سخت پابندیاں لگا کر پورے جموں کشمیر کو عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا، طالب علموں کے لیے تعلیم جاری رکھنا بند ہو گیا اور بیماروں کے لیے ہسپتال جانا بھی ناممکن بنا دیا گیا۔ اِس کے علاوہ بھارت نے کشمیریوں کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی بپتا سنانے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کا کنکشن منقطع کر دیا۔ رتی برابر شک گذرنے پر مکینوں کو ان کے گھروں سے باہر نکال کر ان کے گھروں کو چشمِ زدن میں مسمار کیا جانا، جیلوں میں ٹھونسنا، سخت جسمانی سزائیں دے کر اپاہج بنانے اور شہید کرنے کا عمل پہلے سے تیز تر کر دیا۔

بھارت کے جابرانہ اقدام اور غاصبانہ قبضے سے آزاد و جموں کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے علاوہ ریاستِ پاکستان، جو کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتی ہے، کے عوام پر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں کی حکومتِ پاکستان سے اُمید تھی کہ اِس بار بھارت ظلم کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ اس لیے اس کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھانا پہلے کی نسبت اب زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ لہٰذا اِسے سفارتی میدان میں بہت جلد بدترین شکست سے دو چار کیا جائے گا اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کروانے کے ساتھ ساتھ 1947ء سے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے ستم رسیدہ کشمیریوں کو آزادی دلوائی جائے گی۔

عمران خان کی حکومت کشمیری اور پاکستانی عوام کی اُمیدوں پر کتنا پورا اُتری ہے؟ آیئے جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے ہم عمران احمد خان نیازی کی حکومت کے اُن عملی اقدامات کو دیکھتے ہیں، جو کشمیریوں کے حق میں کیے گئے ہیں:

1.         قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے ہدایت کی تھی کہ تمام لوگ ہر جمعہ کے روز 12 بجے سے ساڑھے 12 بجے تک آدھا گھنٹہ کشمیر کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کھڑے ہوں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ "باکمال اظہار یکجہتی” ایک جمعہ کے بعد وزیرِ اعظم خود ہی ہمیشہ کے لیے بھول گئے۔

2.         عمران خان نے فرمان جاری کیا تھا کہ پوری قوم کشمیر کے لیے متحد ہو جائے اور اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو پارلیمنٹ تو دور کی بات ہے، اپوزیشن کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں آنجناب دُوسروں کا مؤقف سنے بغیر ہی اٹھ کر چل دیئے۔

3.         اِس نقطہ نظر سے متفق ہونے یا نہ ہونے سے قطع تعلق ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہاں لکھنا ضروری ہے کہ عمران خان نے کشمیریوں کو واضح ہدایت دی تھی کہ جو بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوششوں کا حصہ بنے گا، وہ دراصل کشمیر کاز سے دشمنی کا مرتکب ہو گا اور پھر حکومت نے اس پر عمل بھی کیا کہ جس کسی نے بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کی چھوٹی موٹی کوشش کی، اسے یا تو گرفتار کر لیا گیا یا ڈرا دھمکا کر واپس کر دیا گیا۔

4.         عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک زبردست تقریر کی، جسے عوام میں کافی سراہا گیا۔ لیکن اس تقریر کے بعد عمران خان کی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں سمجھ کر عمران خان کی حکومت نے کسی سے کوئی خاص سفارتی رابطہ نہیں کیا تاکہ کشمیر کا مسئلہ اُجاگر کر کے حمایت حاصل کی جا سکے۔

5.         وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے 4 اگست 2020ء کو پاکستان کا ‘نیا سیاسی نقشہ’ جاری کیا ہے، جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے اس پر لکھا گیا ہے "انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں اور کشمیر” جبکہ ساتھ میں سرخ سیاہی میں درج کیا گیا ہے کہ "متنازع علاقہ، حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے”۔

سب سے اہم بات ہے کہ یہ نقشہ اقوام متحدہ کی قرارداد 47 کے خلاف ہے، جس میں واضح لکھا ہے کہ "بھارت اور پاکستان کشمیر میں آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے لیے مناسب حالات پیدا کریں، تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آزاد و جموں کشمیر ہندوستان اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں”۔

علاوہ ازیں، اس طرح کے اقدامات سے آپ بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں کر سکتے۔ کشمیر کے مسئلے کے حقیقی حل کے لیے ہمیں بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بھرپور سفارتی کمپیئن، ورنہ نقشہ بازی سے خود کو خوش کرنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ویسے ریاست جونا گڑھ کے بارے میں ہماری نقشہ بازی تاریخ کا حصہ ہے، جسے ہم 1971ء تک اپنے سیاسی نقشے میں پاکستان کا حصہ دکھاتے رہے ہیں، جس کا ذکر 1971ء کے بعد 4 اگست 2020ء تک نہ ہوا، جو ایک بار پھر نہایت اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک عمران احمد خان نیازی کی بدولت ‘نئے سیاسی نقشے’ میں نمودار ہو گیا ہے (سوچیئے، جونا گڑھ پاکستان کے نقشے میں ڈال تو دیا گیا ہے لیکن اب یہ کسی ذلت کے بغیر نکلے گا کیسے؟)۔

یہاں صدرِ پاکستان عارف علوی کے تازہ فرمان کا ذکر نہ کرنا اِنتہائی زیادتی ہو گی، جس میں اُنھوں  نے فرمایا ہے کہ یہ نقشہ اقوامِ متحدہ میں منظور ہو گیا تو مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ ہر ذی شعور پاکستانی اور کشمیری کو ادراک تو اب ہو گیا ہو گا کہ اِس حکومت میں اوپر سے لے کر نیچے تک نابغوں کا ایک ہجوم ہے، جو قوم کا مقدر سنوارنے کو ہزارہا امرت دھاری نسخے لیے تیار بیٹھا ہے۔

6.         حکومت نے اسلام آباد کی شاہراہ کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے رکھ دیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ہائی وے ہمیں سری نگر لے جائے گی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اِس "دانش” پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔

ویسے دنیا کے عظیم ترین شمار کیے جانے والے فاتحین سکندر اعظم، جولیس سیزر، ہنی بال، بسمارک، ہٹلر، بایزید یلدرم، چنگیز خان، صلاح الدین ایوبی اور امیر تیمور لنگ بھی عجب گھامڑ تھے، جو ساری زندگی ذلیل و خوار ہوتے رہے لیکن کوڑھ مغزوں کے بھیجے میں یہ شارٹ کٹ نہ سمایا۔

7.         حکومت نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے 5 اگست 2020ء کو یوم استحصال کشمیر منایا، ایک منٹ کی خاموش اختیاری کی اور ریلیاں نکالیں۔

سوال یہ ہے کہ اِس طرح کی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی شوبازی سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا اور محض بڑھکیں مارنے سے کشمیری عوام پر ظلم کی سیاہ رات ختم ہو جائے گی؟

8.         سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان سابقہ بھارتی الیکشنز سے قبل نہ صرف بار بار نوید سنا رہے تھے کہ "مودی کی جیت سے مسئلہ کشمیر حل ہو گا”۔ بلکہ وہ کشمیر سے متعلق مودی کے کافی حد تک ہم خیال بھی ہیں، وزیرِ اعظم بننے سے قبل جس کا وہ اظہار کرتے ہوئے تجویز دے چکے ہیں:

"کشمیر کا بہترین حل تین حصوں میں تقسیم ہے، لداخ بھارت، گلگت بلتستان پاکستان کو دے دیا جائے۔ وادی اور آزاد کشمیر کو ملا کر تیسرا حصہ خود مختار کر دیا جائے۔” (عمران خان کے انٹرویو کا اسکرین شاٹ آرٹیکل کے آخر میں دیکھا جا سکتا ہے۔)

اب ہم عمران احمد خان نیازی کی حکومت کے بھارت کے حق میں عملی اقدامات کا پوائنٹ وائز جائزہ لیتے ہیں:

1.         بھارت کے جمُوں کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد جمع کرانے کے لیے کم از کم 16 ممالک کی حمایت کی ضرورت تھی لیکن پاکستانی حکومت کی لابنگ نے کشمیریوں اور پاکستانیوں کو تب شرمندہ کر دیا جب قراردار منظور تو بہت دُور کی بات، پاکستان اس قرارداد کو جمع کرانے کے لیے درکار کم سے کم ممالک کی حمایت کی شرط بھی پوری نہ کر سکا (حالانکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ ہمیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھارت کے خلاف قرارداد لانے کے لیے 58 ممالک کی حمایت حاصل ہے)۔

فقط 16 ممالک کی حمایت بھی حاصل نہ کرنے کے عملی اقدامات پاکستانی حکومت کی کس نیت کی غمازی کرتے ہیں حالانکہ اِن ممبران ممالک میں 10 اسلامی ممالک بھی شامل تھے؟

2.         اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے کے لیے بھارت کو ووٹ بھی اِسی موجودہ حکومت نے دیا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 5 اگست 2019ء پاکستانی قوم کے لیے یوم شرمندگی ہے اور بھارت جو کام پچھلے 72 سالوں میں نہیں کر سکا، اُس نے وہ کام پاکستان کی اس موجودہ حکومت کے دوران کیا ہے۔ یاوہ گوئیاں بھلے جتنی فرما لیں لیکن اب زمینی حقائق یہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر عملی طور پر بھارت میں شامل ہو گیا ہے۔

3.         پاکستان پر حملہ کرنے والے بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن ورتھامن کو جھٹ سے رہا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ ہم پاکستان پر بمباری کرنے والے بھارتی پائلٹ کے ذریعے بھارت کا گھناؤنا چہرہ بار بار دنیا کے سامنے پیش کر سکتے تھے۔ اجمل قصاب کے حوالے سے بھارت ہمارے ساتھ یہ کر چکا ہے۔

4.         پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور ملک توڑنے کی سازشوں میں ملوث کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا سے بچانے کے لیے آئی سی جے (بین الاقوامی عدالتِ انصاف) کے فیصلے کی غلط تشریح کرنے، عوام اور پارلیمنٹ سے چھپ کر فردِ واحد اور وہ بھی دشمن ملک کے مجرم شہری کے لیے غیر قانونی آرڈیننس جاری کرنے، عدالت میں رحم کی اپیل کرنے اور اپنی طرف سے وکیل پیش کرنے کے کارنامے بھی یہی عمران خان کی حکومت سر انجام دے رہی ہے تاکہ اِس بھارتی جاسوس و دہشت گرد کو جلد سے جلد محفوظ طریقے سے بھارت کے حوالے کیا جا سکے۔

5.         بھارت کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب اور مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے عمران خان کی حکومت نے ابھی تک کوئی ایک چھوٹی سی بھی سفارتی کامیابی حاصل نہیں کی۔ کامیابی حاصل نہ کر سکنے سے بڑی کوتاہی سرے سے کوشش نہ کرنا ہے۔ دنیا بھر میں بھاری بجٹ ہڑپ کرنے والے پاکستانی سفارت کاروں کو نہیں دیکھا گیا کہ وہ کشمیر کاز کے لیے دنیا کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہوں۔

عمران خان کی سفارتی "کامیابیوں” کی جھلک مسلم ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ اہم مسلم ممالک اپنے سب سے بڑے سویلین ایوارڈز بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو دے چکے ہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) میں بھارتی وزیرِ خارجہ کو بلایا جاتا ہے، جہاں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر کھل کر پاکستان پر تنقید کر سکتی ہیں۔ اور حد یہ ہے مکہ ڈیکلریشن سے کشمیر کو نکال دیا جاتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے سفارتی میدان میں بھارت کے خلاف تاخیری حربے بھیانک نتائج کے حامل ہوں گے کیونکہ شُنید ہے کہ کشمیریوں کی عددی اکثریت کو تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ اقدامات شروع ہو گئے ہیں۔ غیر کشمیریوں کے لیے جائیداد خریدنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے سول سروس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس وقت جمُوں کشمیر میں تمام اعلٰی سرکاری عہدوں پر غیر کشمیری ہندوؤں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پانچ لاکھ ہندو و سکھ خاندانوں کو جموں کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے جا چکے ہیں۔ جن کی اکثریت آر ایس ایس کے غُنڈوں، جمُوں کشمیر میں تعینات رہنے والے سابقہ قاتل فوجی اور پولیس ملازمین پر مشتمل ہے۔ بھارت کا پلان ہے کہ اگلے تین سالوں میں 28 لاکھ ہندوؤں کو جمُوں کشمیر میں آباد کیا جائے۔ اِن عملی اقدامات سے نریندر مودی کے یہ اِرادے کھل کر سامنے آ چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کی طرز پر فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں اقوام متحدہ کی قرارداد 96 کا تدارک کیا جا سکے جس میں کہا گیا ہے کہ "بھارت کشمیر سے اپنی افواج کو ہٹائے اور اقوام متحدہ کے اس اصول کو قبول کرے کہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا تعین اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا”۔

یہ بات بھی آدمی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ عمران خان کی حکومت بھارت کی ہمسایہ ممالک سے لمحہ موجود کی کشیدگی کا فائدہ اُٹھانے سے کیوں کترا رہی ہے۔ اِس وقت لداخ میں بھارت کی ناکام یلغار کے بعد چین اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ چین کشمیر کے معاملے میں کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔ مزید برآں،  چین نے ایران کے چاہ بہار سٹرٹیجک منصوبے سے بھارت کی چھٹی کرا دی ہے۔ دوسری طرف چین نے بنگلہ دیش کو اپنے دام میں ایسا پھنسایا ہے کہ بنگلا دیشی وزیرِ اعظم حسینہ واجد، جو ہمیشہ سے بھارت کا دم بھرتی آئیں ہیں، اب اُنھوں نے اپنی ساری ہمدردیاں چین کے کھاتے میں ڈال دی ہیں۔ مزید برآں، اِس وقت دوسرے ہمسایہ ممالک نیپال اور بھوٹان کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

ہم یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ عمران احمد خان نیازی کی حکومت کے مندرجہ بالا عملی اقدامات کا جائزہ لے کر خود فیصلہ کریں کہ عمران خان مظلوم کشمیریوں کے ہمدرد ہیں یا پھر اندرونِ کھاتے اپنے عالمی آقاؤں کے حکم پر یہ سب اقدامات غاصب بھارت کے حق میں کر رہے ہیں؟

صحافی رؤف کلاسرا قانون سے ماورا کیوں؟

تحریر: امام بخش

موہن داس کرم چند گاندھی ایک رات اپنی پوجا پاٹ میں مصروف تھے تو کہیں سے ایک سانپ وہاں آ گیا جو اِن کے گرد گردش کرتا رہا لیکن کاٹنے سے گریز کیا۔ ہندو پریس نے اس واقعے کو خوب اُچھالا اور اسے گاندھی کی کرامت کہہ کر اُنھیں مہاتما قرار دے دیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی اکسایا گیا کہ وہ بھی موہن داس کرم چند گاندھی کو مہاتما کہیں کیونکہ انہیں سانپ بھی ڈنگ نہیں مارتا لیکن جناح نے انہیں مہاتما تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ جب صحافیوں نے اس واقعہ پر پُرزور اصرار کر کے محمد علی جناح کا رد عمل جاننا چاہا تو انھوں نے جواب دیا "سانپ اور گاندھی ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں تو سانپ گاندھی کو نہیں ڈستا اور گاندھی سانپ پر لاٹھی نہیں مارتے، یہ پیشہ ورانہ حسن سلوک ہے”۔

قائد اعظم کی یہ باکمال پھبتی ہمیں اُس وقت بہت یاد آئی جب ہم نے جھوٹ کے سوداگر اور عادی تہمت طراز رؤف کلاسرا نامی صحافی کی حمایت میں چند صحافیوں کے وارفتگیوں اور عقیدت بھرے "پروفیشنل آداب” دیکھے۔

رؤف کلاسرا کے رشتے داروں کی خاندانی زمین کے تنازع کی خبر جب سوشل میڈیا پر پھیلی تو سرائیکی وسیب میں قابلِ نفرین سمجھے جانے والے اِس صحافی کے خلاف پڑھے لکھے سرائیکی نوجوانوں نے اپنی نفرت کا بھرپور اظہار کیا، جن میں اِن کے اپنے قریبی  رشتے دار اور گاؤں کے لوگ بھی شامل ہیں جو آنجناب کی فتنہ انگیزی کا شکار ہیں۔

رؤف کلاسرا نے اِن نوجوانوں کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی ہے اور سوشل میڈیا پر سرائیکی وسیب کے غریب نوجوانوں کو تین سال کی سزا اور دس لاکھ جُرمانے کی کھلم کھلا دھمکیاں دینا بھی شروع کر دی ہیں۔ سرائیکی وسیب کے نوجوانوں کے خلاف رؤف کلاسرا کی سینہ پھیلائی اِتراہٹ دیدنی ہے اور اِن کا طرزِ عمل دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسے مچھر نے ملیریا کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔

رؤف کلاسرا کا بھرپور ردعمل دیکھ کر ہمیں ٹوئٹر پر "حرامی میڈیا” کا وہ ٹاپ ٹرینڈ یاد آ گیا جو تحریکِ اِنصاف کے کارکنوں نے رؤف کلاسرا اور چند صحافیوں کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان سے چند سوالات پوچھنے پر چلایا اور اِس کے ساتھ ساتھ دُشنام طرازی اور الزامات کا طوفاں بپا کر دیا تھا۔ اس موقع پر رؤف کلاسرا نے سائبر کرائمز کے حوالے سے چھوٹی سی "چُوں” بھی نہیں فرمائی تھی لیکن سرائیکی وسیب کے غریب نوجوانوں کی طرف سے تنقید پر جو تحریکِ اِنصاف کے کارکنوں کے مقابلے میں عشرِ عشیر بھی نہ تھی لیکن اِن کو سائبر کرائم یاد آ گیا ہے۔ رؤف کلاسرا کی اِس ننگی فرعونیت کے مظاہرے پر ہمیں پنجابی فلم کے وِلن کا وہ ڈائیلاگ بڑی شدت کے ساتھ یاد آ رہا ہے "سانوں تگڑے تے ترس بڑا آندا اے، ماڑے تے تپ وی بڑی چڑھدی اے (ہمیں طاقتور پر بہت ترس آتا ہے اور کمزور پر غُصہ بھی بہت آتا ہے)”۔

یہاں ہم یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جب راقم نے پہلی بار رؤف کلاسرا کے خلاف 2014ء میں آرٹیکل لکھا تھا اور اِن کی بدبُودار صحافت کا بھانڈا پھوڑا تھا تو موصوف فیس بُک سے چند سکرین شارٹس لے کر ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں شکایت لے کر گئے تاکہ مقدمہ درج کرایا جا سکے لیکن بے بنیاد ثبوتوں کی وجہ سے آنجناب کو ناکام و مراد لوٹنا پڑا۔

دُنیا جہان پر بے بنیاد تنقید کرنے والے رؤف کلاسرا کی رعونت اور کروّفر کا اندازہ کریں کہ آنجناب اپنے آپ پر ہلکی سی تنقید برداشت کرنے سے قاصر ہیں کہ جیسے یہ خود آسمان سے اّتری ہوئی اعلٰی قسم کی مخلوق ہیں اور خلق خدا حشرات الارض ہیں، جنھیں یہ سائبر کرائم ونگ سے ڈراتے ہوئے دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں جو نصیحت دوسروں کے لیے کرو اس پر خود بھی عمل کرو لیکن شاید یہ بات نرگسیت کے مارے رؤف کلاسرا کے لیے نہیں ہے۔

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے، جس میں قلم، الفاظ اور آواز کے ذریعے برائیوں کو بے نقاب اور اچھائیوں کو نمایاں کر کے معاشرے کی ترقی و بہبود میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تنقید کرنے پر سرائیکی وسیب کے نوجوانوں کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ذریعے سزا دلوانے کے خواہش مند رؤف کلاسرا کون سی صحافت کر رہے ہیں؟

رؤف کلاسرا نے اپنے رشتے داروں کی خاندانی زمین کے تنازع پر 29 مئی کو دنیا اخبار میں اپنے کالم میں نقطہء نظر پیش کیا ہے، جس میں اُنھوں نے اپنی زوجہ محترمہ سے نجانے کون سے بدلے لیے ہیں؟ پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اُن کی بیوی اُنھیں کہتی ہیں:

"تم سرائیکی وسیب کے چاچے مامے بن لو انہیں موقع ملا تو یہی تمہارے اوپر توپیں اور گنیں تان کر کھڑے ہوں گے۔ تم سرائیکیوں کے حقوق کی بات کرتے ہو یہی سرائیکی ایک دن تمہیں نبٹ لیں گے”۔

رؤف کلاسرا اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ اُن کی بیوی اُنھیں گاؤں کے لوگوں سے کس برتاؤ کا مشورہ دیتی ہیں:

"تم علاقے میں کسی کو تھانے میں اٹھوا کر پٹواتے نہیں ہو، ایس ایچ او مرضی کا نہیں لگواتے، ضلع کے ڈی سی، ڈی پی او سے ملنے نہیں جاتے۔ اگر تم نے بھی تھانہ کچہری کی ہوتی، مرضی کا ایک آدھ ایس ایچ او لگواتے اور گاؤں آتے جاتے رہتے تو تمہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔”

ہم رؤف کلاسرا کی زوجہ محترمہ کے سرائیکی قوم اور اُن کے گاؤں کے لوگوں کے بارے خیالات پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہیں۔

ہماری کل ہی ایک سینئر صحافی سے بات ہو رہی تھی، جنھوں نے پہلی بار ایک سرائیکی اخبار میں رؤف کلاسرا کو نوکری دی تھی۔ اُنھوں نے ان کے بارے میں دریا کو کُوزے میں بند کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ:

جہاں دیکھے توا پرات، وہی گاوے ساری رات!

مگر ہم نے یوسف رضا گیلانی کی طرف سے رؤف کلاسرا پر نوازشات کی بارش کے واقعات سنانے کے بعد "گدھے کو حلوا کھلا کر لاتیں کھانا” والا محاورہ سنا کر اپنے تئیں سینئر صحافی کو لاجواب کر دیا۔ مگر سینئر صحافی نے واضح کیا کہ یوسف رضا گیلانی کے پیش کردہ حلوے سے زیادہ لذیذ حلوہ پیش ہوا ہو گا تو درباری راگ تبدیل ہوا ہو گا۔

خبط عظمت کی بیماری میں مبتلا رؤف کلاسرا کی صحافت کا اکثریتی حصّہ آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے پر مشتمل ہے۔ وہ سالوں سے اِس بڑی اسائنمنٹ سے اپنی روزی "حلال” کر رہے ہیں۔ اِس حوالے سے ہم رؤف کلاسرا اور اُن کے حواریوں سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے سوالات کے جوابات دے دیتے ہیں تو ہم معذرت کر کے اُن کے ہم خیال ہو جائیں گے۔ ورنہ رؤف کلاسرا سے ہماری درخواست ہے کہ وہ صحافت کے نام پر جہالت مت پھیلائیں اور یہ ضد چھوڑ دیں کہ دُنیا کو ان کی آنکھوں، کانوں اور قلم سے دیکھا، سُنا اور پڑھا جائے:

  1. کوئی ایک مقدمہ یا الزام جو آصف علی زرداری کے خلاف عدالت میں سچ ثابت ہوا ہو اور وہ اُس میں باعزت بری نہ ہوئے ہوں؟ فقط ایک مقدمہ درکار ہے۔

  2. آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ بنانے یا بہتان تھوپنے والا کوئی ایک شخص دکھا دیں، جس نے زرداری سے معافی نہ مانگی ہو اور اِقرار نہ کیا ہو کہ وہ مقدمہ یا الزام جھوٹا تھا۔ اِس کے علاوہ مقدمہ بنانے والے نے بھلے بظاہر معافی نہ مانگی ہو مگر اُس نے اپنے عمل سے یہ ثابت نہ کیا ہو کہ وہ جھوٹا تھا اور آصف علی زرداری سچا؟ فقط ایک شخص بتا دیں!

  3. آصف علی زرداری پچھلے تینتیس سال سے جھوٹے مقدمات بھگتتے آ رہے ہیں، اُنھوں نے کوئی مقدمہ ثابت ہوئے بغیر پوری جوانی پُرتشدد جیلوں میں گذار لی۔

    کیا کبھی زرداری نے کسی قسم کی آئین شِکنی کی یا کسی آئینی ادارے کی توہین کی؟ کبھی عدالتوں سے (عمران خان کی طرح) مفرور ہو کر اشتہاری ہوئے؟ کیا عدالتوں پر (شریفوں کی طرح) حملے کیے؟ اگر زرداری نے (شریفوں کے برعکس) چیف جسٹس یا عدالتِ عظمٰی تو کیا کسی ڈسٹرکٹ جج کے خلاف بھی ایک لفظ بولا ہو تو ضرور رہنمائی فرمائیں؟

  4. آصف علی زرداری نے حکومت میں آ کر اپنے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے اور اذیتیں دینے والے کسی ایک سیاسی مخالف یا رؤف کلاسرا ایسے دروغ گو صحافی کے خلاف کسی حکومتی ادارے کو استعمال کیا ہو؟ شریفوں کی طرح ججوں کو فون کیے ہوں اور سیاسی مخالفوں کے خلاف ملی بھگت کی ہو؟ یا آئین و قانون سے روگردانی کرتے ہوئے اپنی بیوی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید تک کے قاتلوں کے خلاف قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہو؟ فقط ایک مثال درکار ہے۔

  5. جب آصف علی زرداری اپنے خلاف تمام مقدمات میں عدالتوں سے باعزت بری ہو چکے ہیں تو پھر کیا رؤف کلاسرا اُن مقدمات میں لگائے گئے جھوٹے الزامات کو دُہرا کر توہینِ عدالت کے مرتکب نہیں ہوتے؟

  6. جب رؤف کلاسرا ہمہ وقت آصف علی زرداری کے خلاف عدالتوں میں ثابت شدہ جھوٹے مقدمات کی پرنٹ اور الیکٹرونک کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پُرزور منادی کرتے ہیں تو پھر یہ خود سائبر کرائم قوانین سے مُبَّرا کیسے ہو گئے؟

    غریب سرائیکیوں کو سائبر کرائم کے حوالے سے تین سال قید اور دس لاکھ روپے کے جُرمانے کی دھمکیاں دینے والے رؤف کلاسرا اپنی قید اور جرمانے کا حساب لگا کر بتائیں گے؟

مندرجہ بالا حقائق کے بعد آدمی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ رؤف کلاسرا خود تو چاہتے ہیں کہ وہ ہر واردات کر کے قوانین کی دھجیاں اُڑاتے رہیں، دوسرا اگر کوئی ان کے خلاف جائز تنقید بھی کرے تو وہ دھمکیوں پر اُتر آئیں۔

یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے

جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے

مرزا غالب نے جب گلی میں ایک بزرگ کی ڈانٹ کے جواب میں کہا: بڑے میاں بوڑھے ہو گئے ہو بزرگ نہیں، تو بزرگ بقلم خود نے شکایت لگا دی۔ مرزا کی طلبی ہوئی تو انہوں نے اپنی صفائی دی "یہ تو شیخ سعدی نے کہا تھا، میں نے تو صرف دہرایا ہے”۔ راقم لکھ رہا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ وہ بھی صرف دہرا رہا ہوں، کہا تو غالب اور سعدی نے تھا۔

رؤف کلاسرا صاحب! دوسروں کی آنکھ کا تنکا تاڑنے کی بجائے اپنی آنکھ کا شہتیر ملاخط کرنا پسند کیوں نہیں فرماتے؟ ایک لوٹے مُشیر کی گود میں بیٹھ کر غریب سرائیکیوں کے خلاف کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئے آپ کو اپنا انجام نہیں بھولنا چاہیئے کیونکہ یہاں ہم نے ارشاد احمد حقانی ایسے صحافی کا عروج بھی دیکھا ہے، جس کے دروازے پر وزرائے اعظم کھڑے رہتے تھے، اگر اُن کا کوئی رشتے دار وفات پا جاتا تھا تو اُس کے جنازے میں لوگوں کا جم غفیر شرکت کرتا تھا۔ بعد میں ہم نے اُن کا زوال بھی دیکھا ہے۔ جب اُنھوں نے خود وفات پائی تو اُن  کے جنازے میں گنتی کے چند لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اگر آپ کسی کا اختلاف گوارا نہیں کر سکتے، تو پھر آپ کو کسی سے اختلاف کی جسارت زیبا نہیں دیتی۔ یاد رکھو کہ ایک سلیم الفطرت انسان سب کچھ ہو سکتا ہے، اختلاف رائے پر آتشِ زیر پا نہیں ہو سکتا۔ حق گو اور آزاد منش صحافی صفدر کلاسرا کی عزت اور آپ کی ذلت پورے سرائیکی وسیب میں الم نشرح ہے۔ آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اب آپ کے اَنت کا لمحہ آ پہنچا ہے، یقین نہیں ہے تو پھر کُھلے کانوں سے زبانِ خلق کو سُنو اور کُھلی آنکھوں سے اپنے قریبی رشتے داروں اور گاؤں کے لوگوں کو بھی دیکھو جو آپ کی فرعونیت کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں توڑ رہے ہیں۔ آییے آپ کی خدمت میں مشہور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کا ایک سطری سبق آمیز خط پیش کرتے ہیں، جو اُنھوں نے نواب آف بھاول پور صادق محمد رابع عباسی کو نصیحت کے طور پر لکھا تھا:

صادق! زِیر بَنڑ، زَبر نہ بَنڑ، مَتاں پیش پوندی ہووی — غلام فرید (صادق! عجز و محبت کا سلوک روا رکھو، ظلم و ستم مت ڈھاؤ وگرنہ یہی کُچھ تمھارے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے: غلام فرید)


بشکریہ: سماچار

Samachar-Logo

این آر او: بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟ (2)

Article Image

تحریر: امام بخش

دو قسطوں پر مشتمل آرٹیکل کی یہ آخری (دوسری) قسط ہے۔ پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں امریکہ کی ہر مانگ پوری ہو رہی تھی (جن کے نقصانات کا ازالہ ہماری کئی نسلیں کرتی رہیں گی) لہٰذا وہ مکمل طور پر پاکستان کے غیر آئینی حکمران کی پشت پر کھڑا تھا۔ ڈکٹیٹر کے شکنجے میں جکڑا ہوا پاکستان لاتعداد مسائل میں گھرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا تھا۔ صوبہ بلوچستان میں آگ لگی ہوئی تھی۔ شمالی علاقہ جات مکمل طور پر دہشت گردوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ پاک فوج کے خلاف عوام میں نفرت روز بروز بڑھ رہی تھی۔ لیکن پاکستان کی اس بدترین صورت حال سے ڈکٹیٹر اور اس کے حواری بالکل لاپرواہ تھے۔

دوسری طرف امریکی اور اس کے اتحادی افغانستان میں جنگ کی طوالت سے پریشان تھے، جو جلد از جلد جنگ بندی چاہتے تھے۔ اِن کی ہر فرمائش پوری کرنے والا پرویز مشرف کوششوں کے باوجود افغانستان میں جنگ بندی کرانے سے لاچار تھا بلکہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان آفریت بن کر ٹوٹ پڑی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ اس صورت حال میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالمی طاقتوں کو باور کرایا کہ اگر وہ باوردی صدر کی حمایت چھوڑ دیں اور پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار کریں تو وہ جنرل (ر) نصیراللہ بابر کے ذریعے افغانستان میں جنگ بندی کروا سکتی ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جنگ مخالف لابی میں شامل فرانس اور جرمنی ایسے ممالک کو اپنے نقطہ نظر کا حامی بنا لیا۔ اِن حالات میں امریکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف میں معاہدہ کرانے پر مجبور ہو گیا۔

پرویز مشرف نے اکتوبر 2007ء میں این آر او جاری کیا اور نومبر 2007ء میں وردی اُتار دی۔ وردی کو بجا طور پر اپنی کھال سمجھنے والے پرویز مشرف بہت بڑی خطا کر بیٹھے تھے، لہٰذا وہ وردی اُترنے کے بعد زہریلے سانپ کی جگہ فقط کیچوا بن کر رہ گئے۔ اس کے بعد وہ معاہدے کی ایک اور اہم شق یعنی تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ پر پابندی ختم کرنے سے انکاری ہو گئے۔ مزید برآں، پرویز مشرف نے دوسری بار آئین شکنی کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ملک کی اعلٰی عدلیہ کے درجنوں ججوں کو برطرف کر کے انہیں گھروں میں نظر بند کرنے کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی متعدد پابندیاں عائد کر دی تھیں، جس کے باعث بیشتر ٹیلی ویژن چینلز کئی روز تک بند رہے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی پرویز مشرف سے کیے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال کر فقط پاکستان کے آئین اور ریاستی نظام کو جمہوری بنانے کے لیے تنِ تنہا میدانِ کار زار میں اُتر پڑیں۔ جب وہ کراچی ایئرپورٹ پر اُتریں تو اُن کے استقبال کے لیے سڑکوں پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا عوام کا سمندر موجود تھا۔ لاکھوں لوگ محوِ رقص تھے۔ عوام کی والہانہ محبت دیکھ کر وہ خوشی سے سمائے نہیں جا رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں سے شکرانے کے آنسو رواں تھے۔ جب وہ کارساز کے مقام پر پہنچیں تو غصے سے تلملاتے دشمنوں نے خوفناک ردعمل دیتے ہوئے دھماکے کر دیئے، جس کی وجہ سے سینکڑوں جیالے شہید اور زخمی ہو گئے۔ دُشمنوں کا پیغام واضح تھا کہ جان بچا کر پاکستان سے واپس لوٹ جائیں۔

Arrival

محترمہ بے نظیر بھٹو نے سانحہ کارساز کے بعد ہمت نہ ہاری بلکہ دہشت گردوں، مذہبی انتہا پسندوں اور مقتدرہ کے آمرانہ عناصر کے گٹھ جوڑ کو پہلے سے زیادہ شدت سے للکارنے لگیں۔ بی بی بہت اچھی طرح جانتی تھیں کہ اُن کی ہر جلسہ گاہ میں دہشت گرد گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اُن کے رفقاء کی طرف سے اُنھیں بار بار روکنے پر اُن کا اصرار تھا کہ ملک و قوم کو درپیش خطرات سے نجات اور پاکستان کو ایک جمہوری اور روشن خیال بنانے کے لیے ان کے پاس عوام کو متحرک کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اُن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ القاعدہ، طالبان، ڈکٹیٹر مشرف اور اس کے بے مہار کارندے اُنہیں مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں، لیکن وہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں اور منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔

karsaz-blast

راولپنڈی کے جلسہ عام میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے باکمال خطاب کیا، اُنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے، ترقی پسند، جمہوری اور عوامی پاکستان کے لیے اپنا لائحۂ عمل دیا۔ اِس جلسہ عام سے اُن کی واپسی نہ ہوئی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اُن کی شہادت پر جو ملک میں کہرام مچا، شاید کبھی کسی رہنما کی موت پر ایسا منظر تاریخ نے دیکھا ہو۔ اور جو خلأ پیدا ہوا، وہ پُر ہونے کو نہیں ہے۔

Benazir Bhutto waves to supporters at a campaign rally in Rawalpindi.

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی ہی تھی، جس سے وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور میاں نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار ہوا۔ پرویز مشرف خاندانِ شریفاں کے ساتھ دس سالہ معاہدے کے تحت اُنھیں پاکستان میں داخل ہونے کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔ نہیں یقین تو یاد کیجیئے کہ کس طرح شریف برادان کی پاکستان میں آنے کی کوششوں کی خوب درگت بنائی گئی تھی۔ ایک بار تو نوازشریف کو اِسلام آباد ایئرپورٹ پر ڈنڈا ڈولی بنا کر ٹوائلٹ میں پھینک دیا گیا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کے خاوند آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے مشرف کو مواخذے کے زور پر صدارتی محل چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ جو لوگ جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر دینے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جنرل مشرف کا نظام ہی تھا، جس کے تحت اُنھوں نے گارڈ آف آنر لیا تھا مگر ایک ڈکٹیٹر سے اقتدار چھین کر پاکستان کو جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھانا عظیم کارنامہ تھا، جسے بے دلیلے اور بے سمتے لوگ کبھی اپنی زبان پر نہیں لاتے۔

اب ہم اِس پہلو کا جائزہ لیتے ہیں کہ اگر این آر او نہ آتا تو کیا صورت حال ہوتی؟

اگر این آر او نہ آتا تو شریف برادران یقینی طور پر بالوں کی نئی وگیں لگا کر لندن میں "کِم بارکروں” سے ملاقاتوں میں مشغول ہوتے، اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹوں میں کھابے اُڑا رہے ہوتے، صحافیوں کے سامنے آنکھوں میں آنسو بھر بھر کر روہانسی آواز کے ساتھ المیہ انداز میں پختہ اداکاری کے ساتھ بڑے بڑوں کو رلا رہے ہوتے، قرآن کی قسمیں کھا رہے ہوتے کہ اب وہ یکسر بدل گئے ہیں، لہٰذا اب وہ صرف اصولوں کی سیاست کریں گے۔

سیاسی پارٹیوں کی اکثریت باوردی صدر کی آئینی پاسباں بن کر ایل ایف او طرز کی ترامیم سے آئین پاکستان کے بخیئے ادھیڑ رہی ہوتیں۔ عمران احمد خان نیازی باوردی صدر کے ریفرنڈم کی پولنگ ایجنٹی کر رہے ہوتے یا پھر دھاندلی کے ذریعے وزیرِ اعظم بننے کی فریادیں کر رہے ہوتے یا پھر شاید اپنی سلیکشن جلد کرانے میں کامیاب ہو جاتے۔

عدالتیں فردِ واحد کی آئین شکنیوں کے سامنے کورنش بجا لاتے ہوئے ڈِکٹیٹ کیے ہوئے فیصلوں پر آمناً و صدقناً کہتی نہ تھکتیں۔

المختصر، مجموعی طور پر میڈیا سمیت سب سر جھکائے خاموشی سے ہر حکم کی بجا آوری کرتے رہتے کیونکہ وہ سب جان چکے تھے کہ برگد کے اسی پیڑ کے نیچے بیٹھنے سے ہی نروان ملے گا۔ اس صورت حال میں جنرل مشرف یا اس کا کوئی باوردی جانشین اپنا اقتدار جاری رکھتا لیکن یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ لاقانونیت کی وجہ سے پاکستان کی کیا درگت بنتی اور ہمیں کن کن سانحات کا سامنا کرنا پڑتا۔

اب ہم ایک دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں کہ این آر او کے بغیر پاکستان کو پرویز مشرف کی گرفت سے نکالا جا سکتا تھا؟ جواب ہے، نہیں! کیونکہ یہ ہماری تاریخ ہے کہ سوائے مشرف کے کون سا آمر تھا جو سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اقتدار بدر ہوا؟ وطنِ عزیز میں آئین شکنی کے بانی ایوب خان نے پاکستان کی دبوچی گردن تب چھوڑی، جب مسلسل حکمرانی کے بعد اُن کے ماتحتوں نے اُن کے ساتھ ہاتھ کر کے اِقتدار خود اُچک لیا، 1971ء کا سانحہ نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ یحییٰ خان اپنی آنکھوں میں مزید اِقتدار کی حسرتیں سجائے قوم کے سر سے اُترتے؟ ضیاء الحق جہاز میں جل کر بھسم نہ ہوتے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اُن کے ناجائز اقتدار سے اُنھیں باہر کر دیا جاتا؟ مشرف بھی این آر او کر کے محترمہ بینظیر بھٹو کے سیاسی جال میں پھنس کر غلطی نہ کرتے تو کس مائی کے لعل کے بس کی بات تھی کہ اُنھیں بِلا شرکت غیرے حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیتا؟

اب ہم ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا نقطہ نظر دیکھتے ہیں کہ وہ بذاتِ خود این آر او کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

این آر او کے بارے میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف خود درجنوں بار اقرار کر چکے ہیں کہ اُن کی سب سے بڑی غلطی این آر او تھا (جس کی وجہ سے اُنھیں مجبوراً اقتدار چھوڑنا پڑا)۔ پرویز مشرف کے اقرار کے بعد این آر او کے بارے میں انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے پیش کیے جانے والے کذب بیانوں کے جھوٹے پروپیگنڈے پر حیرت ہوتی ہے۔ اب تو این آر او کے بارے میں پارلیمنٹ میں سانپ کی طرح لپلپاتی زبان والے لونڈے بے تکان بولتے نظر آتے ہیں، جن کا طرہ امتیاز ہی بے پر کی ہانکنا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی دشمنی میں این آر او کی پھبتیاں کسنے والے این آر او دینے والے آئین شکن پرویز مشرف کا کبھی بھی ذکر نہیں کرتے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر این آر او اُن کی نظر میں غلط تھا تو پھر این آر او دینے والے کا ذکر گول کر کے فقط این آر او لینے والوں کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیا اِس یکطرفہ طرزِ عمل سے اِن کی اَنلمیٹڈ منافقت عیاں نہیں ہوتی؟

تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر ظلم و استبداد کے سامنے سر نہ جھکانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی دانشمندی سے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو این آر او کے ذریعے مات نہ دیتیں تو وہ نہ اپنی وردی اُتار کر کمزور ہوتے، نہ مجبور ہو کر اقتدار چھوڑتے اور نہ ہی عوام کے منتخب نمائندے حکومت سنبھالتے بلکہ جنرل مشرف اقتدار کے مزے کشید کرتے رہتے اور راوی چین ہی چین لکھتا رہتا تاوقتیکہ پاکستان کسی بہت بڑے سانحے کا شکار نہ ہو جاتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے این آر او کی بساط دو بار آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر جنرل مشرف پر خوب اُلٹ دی تھی۔ یہ این آر او ہی تھا جس کے تحت بی بی نے جنرل مشرف کی وردی اُتارنے اور جمہوریت کی بحالی کی کھڑکی کھولنے پر مجبور کیا تھا لیکن اُنہیں اپنی جان کی قربانی دینا پڑی تھی۔ ان کی اِس عظیم قربانی کی قیمت پر پاکستان میں جمہوری عبور ممکن ہوئے۔ اِن ناقابلِ تردید حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے برملا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والی ذوالفقار علی بھٹو کی بے نظیر بیٹی قوم کی عظیم محسن ہے اور این آر او کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے فقط مقتدرہ قوتوں کے چابی بھرے کھلونے ہیں۔

(ختم شُد)

دو قسطوں پر مشتمل آرٹیکل کی یہ آخری (دوسری) قسط ہے۔ پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

بشکریہ: نیا دور

5 جولائی 2019ء

Naya-Daur-Final-Logo_Color-e1553178506994

7 جولائی 2019ء

humsub-square

6 جولائی 2019ء

logo-new

این آر او: بے نظیر بھٹو قوم کی مُجرم یا مُحسن؟ (1)

Article Image

تحریر: امام بخش

وطنِ عزیز میں میڈیا پر فقط مقتدرہ قوتوں کے بیانیئے کا پرچار ہوتا ہے اور وہی مقبول عام بھی ہوتا ہے۔ آئینِ پاکستان کو ردی کے کاغذ سے زیادہ کبھی اہمیت نہ دینے والی یہ مقتدرہ قوتیں جھوٹے حقائق اور جھوٹی تاریخ عوام کو رٹواتی رہتی ہیں۔ یہی قوتیں ہی فیصلہ کرتی ہیں کہ حقائق کے برعکس قوم کے سامنے کس کو ہیرو بنا کر پیش کرنا ہے اور کس کو ولن۔ پاکستان کے بننے کے بعد سے آج تک جھوٹی کہانیوں کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کا یہ طریقہ واردات انتہائی کامیابی سے چل رہا ہے۔ قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او (National Reconciliation Ordinance) کے بارے میں بھی مقتدرہ قوتوں نے اپنا پسندیدہ بیانیہ اپنی سیاسی اور میڈیائی کٹھ پُتلیوں کو پوری طرح ازبر کروا رکھا ہے، جس کا وہ بات بات پر بھرپور پرچار کر کے عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔

این آر او ایک صدارتی آرڈیننس تھا، جِسے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے 5 اکتوبر 2007ء کو جاری کیا۔ اس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پرویز مشرف نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ان تمام مقدمات کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو یکم جنوری 1986ء سے لے کر 12 اکتوبر 1999ء کے درمیان سیاسی بنیادوں پر درج کیے گئے تھے۔ سات دفعات پر مشتمل این آر او آرڈیننس کا مقصد قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کی روایت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا تھا۔

این آر او آرڈیننس جاری ہونے کے دو سال بعد (پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران) جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور شریفین کا گٹھ جوڑ عروج پر تھا تو آصف علی زرداری کو دیوار سے لگانے کے لیے 16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد این آر او کے تحت تمام کالعدم مقدمات دوبارہ کھلنے کے ساتھ آصف علی زرداری کے خلاف سیاسی انتقام کے طور پر بنائے گئے تمام مقدمات بھی بحال ہو گئے۔ ڈبل پی سی او زدہ افتخار چوہدری کو اپنی طبع آزمائی کے پیش نظر آصف علی زرداری کے خلاف سب سے اہم مقدمات یعنی سوئس کیسز کو مصالحے دار بنانے کے زیادہ مواقع نظر آئے، اِسی لیے انھوں نے سوئس کیسز کو اہم آئیٹمز سمجھ کر این آر او کی پٹاری سے نکالا اور شعبدہ بازی شروع کر دی۔ احتساب عدالت کی لِیلا دھاری کے افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں پورے تین سال تک کھڑکی توڑ شو جاری رکھا اور یہ عدالتی کمرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ایک کامیاب پروپیگنڈہ سیل کا منظر پیش کرتا رہا۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف تعفن زدہ عدالتی ڈائیلاگز کو چسکے لے لے کر ہر شام ٹی وی سکرینوں پر دہرایا گیا، اخبارات میں چیختی چنگھاڑتی شہ سرخیوں سے صفحات کالے کیے گئے اور اخبارات میں پورے پورے صفحات کے اشتہارات چھاپے گئے۔ قوم  نے سوئس کیسز نامی ناٹک کو پورے اُنیس سال تک جھیلا۔

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی عدالتِ عظمٰی کے حکم پر جب آئین کے آرٹیکل 248 کے مطابق سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے تیار تھے مگر عدالت اِس آرٹیکل کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق خط لکھوانا چاہتی تھی۔ گیلانی کی طرف سے اِس غیر آئینی اقدام سے انکار پر سپریم کورٹ نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں جاری کیے گئے توہین عدالت کے آرڈیننس 2003ء کے سیکشن پانچ کے تحت جرم کا مرتکب قرار دے کر غیر آئینی طور پر منتخب وزیرِ اعظم کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ ایک ڈکٹیٹر کو تین سال کے لیے آئینِ پاکستان سے کھلا کھلواڑ کرنے کی اجازت دینے والے ججوں نے قومی اسمبلی میں منتخب وزیرِ اعظم کے حق میں قرارداد اور اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو بھی درخور اعتنا نہ سمجھا۔ مگر بعد ازاں وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف سے عدالت نے سوئس حکام کو اُسی متن کے ساتھ خط لکھوایا، جس کے لیے یوسف رضا گیلانی پہلے ہی رضامند تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے سوئس حکام کو بھجوائے گئے خط کا کورا جواب آیا اور سوئس حکام نے آصف علی زرداری کے خلاف کاروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ شریفوں نے پاکستانی ججوں کے ساتھ ملی بھگت (یہ بات سپریم کورٹ میں ثابت ہو چکی ہے) کی طرز پر سوئس حکام سے بھی ملی بھگت کرنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر سوئس انویسٹیگیٹنگ جج ڈینیل ڈیواؤ نے ابتدائی انکوائری میں بوگس ثبوت دیکھ کر مقدمات چلانا تو دور کی بات، فائل تک کرنے سے انکار کر دیا۔ مزید برآں، شریف حکومت کے سوئس وکیل جیکؤس پاتھن، جنیوا کے اٹارنی جنرل (پراسیکیوٹر جنرل) ڈینیل زیپیلی، جنیوا کے دوسرے اٹارنی جنرل فرانکوئس راجر مچلی کا ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا کمپنیز سے متعلقہ مقدمات (سوئس کیسز) کے بارے میں کھلے مواقف دے چکے تھے کہ پیش کردہ ثبوتوں کی بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کاروائی نہیں ہو سکتی۔ اِن حقائق کے باوجود عدالتِ عظمٰی پاکستان پیپلز پارٹی کے وزراء اعظم کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹرز لینڈ میں ایس جی ایس اینڈ کوٹیکنا کمپنیز سے متعلقہ اُن بند کیسز (سوئس کیسز) کو کھلوانے کے لیے خط لکھوانے پر بضد تھی، جو سِرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ سوئٹرز لینڈ میں اِن کیسز کی فقط انکوائری ہوئی، جس کی کوئی عدالتی اہمیت نہیں تھی اور شواہد نہ ہونے پر سوئٹزر لینڈ میں یہ مقدمات فائل ہی نہیں ہو سکے تھے۔ مزید برآں، یہ بوگس کیسز پاکستانی احتساب عدالت میں بھی خارج ہو چکے تھے۔

آصف علی زرداری کی عہدہ صدارت سے سبکدوشی کے بعد عدالت کی بار بار کی ہدایات کے باوجود استغاثہ عدالت میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا۔ اس طرح 24 نومبر 2015ء کو عدالت نے آصف علی زرداری کو سوئس کیسز میں باعزت بری کر دیا۔ بعد ازاں، این آر او کی کالعدمی سے بحال ہونے والے تمام کے تمام مقدمات سے آصف علی زرداری عدالتوں میں باعزت بری ہو گئے۔ یہاں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آصف علی زرداری یا پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی عہدیدار نے این آر او سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے لیے یہ اچھا ہوا کہ این آر او کی کالعدمی سے بحال ہونے والے تمام جعلی مقدمات عدالتوں میں بھی جھوٹے ثابت ہوئے (واضح رہے کہ اِن جعلی مقدمات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ آصف علی زرداری نامزد ملزم تھے)۔

اب ہم ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو این آر او لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

آئین شکن جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو وہ بار بار کہتے تھے کہ "پاکستانی سیاست سے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ یہ دونوں شخصیات اور ان کے حواری اب پاکستانی سیاست میں کبھی واپس نہیں آئیں گے”۔

وطنِ عزیز کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی کاسہ لیس بن چکی تھی، جنھوں نے ایل ایف او کے تحت یا سترہویں ترمیم کے ذریعے آئین شکن کو تحفظ دینے سے پہلے مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی تھی۔ پی سی زدہ ججوں سے تھوک کے حساب سے بھری عدالتِ عظمٰی پہلے ہی آئین شکن جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دے چکی تھی۔ اس کے بعد عدالتِ عظٰمی نے بخوشی وردی پہنے جنرل مشرف کو بن مانگے تین سال شراکت بلا غیرے پاکستان پر حکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ آئینِ کو کہیں سے بھی تبدیل کرنے کی اجازت فرما چکی تھی۔ بعد ازاں، ڈکٹیٹر وردی کے اوپر شیروانی پہن کر صدر بھی بن گئے۔ اپریل 2005ء میں سپریم کورٹ نے اُن تمام آئینی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا، جن میں پرویز مشرف کے دو عہدے (صدر اور چیف آف آرمی سٹاف) رکھنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکم صادر فرمایا کہ "با وردی صدر ٹھیک ہے”۔

Political Parties

اقتدار چھن جانے کے بعد خاندانِ شریفاں نے جیل میں ایک سال کا عرصہ نالوں، فریادوں، مِنتوں اور ترلوں میں بڑی مشکل سے کاٹا۔ جیسے ہی ان کے معاملات ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ طے پائے، تو یہ پُورا خاندان عوام اور جیلوں میں بند مسلم لیگی لیڈروں تک کو بتائے بغیر رات کے اندھیرے میں انھیں تنہا چھوڑ کر رفو چکر ہو کر سعودی عرب میں سرور پیلس میں سَرُور لینے جا پہنچا۔ یاد رہے کہ یہ خاندان اپنا پُرتعیش سامان، پسندیدہ باورچی اور مالیشئے ساتھ لے جانا نہیں بُھولا تھا۔

ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے "حرم” میں ناز و نعم سے پرورش پانے والے شریف برادران، اپنے پورے خاندان سمیت ایک دوسرے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ساتھ کیے گئے خفیہ معاہدوں کی دستخط شدہ دستاویزات منظر عام پر آنے سے پہلے کامل سات سال (2000ء سے لے کر 2007ء تک) قوم کے سامنے پورے اعتماد سے بار بار جھوٹ بولتے رہے کہ انھوں نے کوئی ڈیل نہیں کی اور نہ ہی کسی معاہدے پر دستخط۔ لیکن پاکستانی قوم 22 اگست 2007ء کو اُس وقت سکتے میں آ گئی، جب پرویز مشرف حکومت کی طرف سے اُس معاہدے کی مصدقہ نقول سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئیں، جس پر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے بیس دیگر افراد نے دسمبر 2000ء کو جیل سے جان چھڑانے اور پاکستان چھوڑنے کے وقت دستخط فرمائے تھے۔

سرور پیلس میں گذری اس وی وی آئی پی جلاوطنی کے دوران خاندانِ شریفاں پاکستان سے آنے والی ٹیلیفون کالز کی گھنٹی پر بھی تھرتھرا جاتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ قربانیاں دینے والے مسلم لیگی لیڈروں تک کے فون نہیں سُنے جاتے تھے۔

شریف فیملی کا سعودی عرب میں بھی سٹیل ملز لگا کر نوٹ کمانے کا سفر البتہ جاری تھا، وہاں سرُور پیلس میں بیٹھ کر لطیفے سننے اور اپنے پسندیدہ کھابے کھانے اور کھلانے میں وقت خُوب مزے میں گزر رہا تھا۔ البتہ پیچھے نُون لیگ کے متوالے ذلیل و خوار ہو کر مُنہ چھپاتے پھر رہے تھے۔

بعد ازاں، جدّہ سے لندن میں جانے سے شریف فیملی کی عیش پرستی کے لوازمات مزید بڑھ گئے۔

Imran and Musharaf

عمران احمد خان نیازی نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی دل و جان سے کمپیئن چلائی تھی۔ 2002ء کے عام انتخابات سے قبل ڈکٹیٹر سے دھاندلی کے ذریعے سِیٹیں لے کر سلیکٹڈ وزیرِ اعظم بننے کے لیے خُوب منتیں ترلے کیے (اگر کوئی اس بات سے انکاری ہے تو وہ پرویز مشرف کے اِس بارے مؤقف کی ضرور جانکاری لے، جو اس بات کا بار باز ذکر کرتے ہیں اور عمران خان آج تک اِس کی تردید نہیں کر سکے)۔ عمران خان سے جب بھی پرویز مشرف کی آئین شکنیوں کے خلاف کاروائی کا پوچھا گیا تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ”پرویز مشرف کو آئین توڑنے کی سزا میرا مسئلہ نہیں ہے”۔ مزید برآں، عمران خان نے کبھی آئین سے سنگین غداری کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت نہیں کی بلکہ اُن کی تعریف اِس والہانہ اور عقیدت مندانہ انداز میں کرتے ہیں کہ جیسے کوئی عہدِ وفا یا رسمِ محبت نبھا رہے ہوں۔

(جاری ہے)

دو قسطوں پر مشتمل آرٹیکل کی یہ پہلی قسط ہے۔ دوسری قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

بشکریہ: نیا دور

4 جولائی 2019ء

Naya-Daur-Final-Logo_Color-e1553178506994

7 جولائی 2019ء

humsub-square

6 جولائی 2019ء

logo-new

زرداری، نواز اور عمران حکومتوں میں سے کس نے زیادہ قرضہ لیا؟

Image

تحریر: امام بخش

عمران احمد خان نیازی کے بارے میں ساری دنیا جان چکی ہے کہ یہ ایک جھوٹا ترین آدمی ہے، اِس لیے کوئی باشعور شخص عمران نیازی ایسے شرم و حیا سے نابلد شخص پر رتی برابر بھی یقین نہیں کرتا۔ ہاں البتہ کوڑھ مغز یُوتھیوں کی اور بات ہے جو عمران نیازی ایسے عظیم دروغ گو کی ڈینگوں پر مشتمل ہر یاوہ گوئی پر دل و جان سے ایمان لاتے ہیں اور انتہائی ڈھیٹ پن سے اُس کا بھرپور دفاع بھی کرتے ہیں۔

اب 11 جُون 2019ء کی مثال لے لیجیئے کہ بدترین بجٹ پیش کرنے کے بعد آنجناب دروغ گو نے یُوتھیوں کو بے قوف بنانے کے لیے کینٹینری انداز کی تقریر فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے گذشتہ ادوارِ حکومت میں ملکی قرضوں میں 24 ہزار ارب روپے کے اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنائیں گے۔

14 جُون 2019ء کو بی بی سی میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں جائزہ لیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنے پچھلے پانچ پانچ سالوں اور تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے ابتدائی سات مہینوں میں کتنے قرضے لیے اور یہ قرضے کتنے مہنگے سُود پر لیے گئے؟

بی بی سی کے آرٹیکل میں عمران نیازی کا مذاق اُڑاتے ہوئے لکھا گیا ہے:

"ظاہر ہے کہ عمران خان کی نگرانی میں کام کرنے والا یہ کمیشن اُس وقت کی سیاسی قیادت، مثلاً کابینہ کے اراکین سے پوچھ سکتا ہے کہ ایسے کیا حالات تھے اتنے زیادہ قرضے لینے کی منظوری دی گئی؟ اب حفیظ شیخ (وزیرِ خزانہ 2010 تا 2013) سے عمران خان یہ سوال کابینہ کے اجلاس میں پوچھیں گے یا علیحدہ میں، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ کمیشن کن قرضوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا، یہ معاملہ قدرے دلچسپ ہے”۔

بی بی سی کے آرٹیکل کے مطابق مالی سال 2007-2008 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک صرف بیرونی (نجی شعبے کے قرضوں کے علاوہ) اور آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے جمع کریں تو پاکستان پر 41.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک قرضے پہنچ گئے۔

اگر 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی کے دور کو دیکھا جائے تو اس دوران اس میں محض 6.3 ارب ڈالر کے قرضے کا اضافہ ہوا۔ عمران نیازی سے قبل لاڈلے کا اعزاز رکھنے والے نواز شریف کے دور میں یہ رقم 48.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو کہ 22.1 ارب ڈالر کا اضافہ ہے۔ جبکہ اگست 2018ء میں تحریکِ انصاف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فقط سات ماہ میں پاکستان کے حکومتی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

مزید برآں، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں  قرضوں کی اوسط شرحِ سود تقریباً اتنی ہی رہی جتنی یہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے تھی۔ مگر 2013ء کے بعد مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ اِنصاف کے رجحان کو دیکھیں تو پاکستان کو ملنے والے قرضوں پر شرحِ سود جنوبی ایشیا کے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے اصولی طور پر میڈیا، جمُورا حکومتوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور "صاف چلی شفاف چلی” تحریکِ انصاف کے ساتھ ساتھ  عدلیہ کو پروپیگنڈہ سیل بنانے والے مشہورِ زمانہ پی سی او زدہ جج صاحبان کو پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بدترین پروپیگنڈہ کرنے پر معافی مانگنی چاہیئے۔

ویسے حق تو یہ بنتا ہے کہ ملٹری اور سول حکومتوں کے تمام ادوار میں لیے گئے قرضوں کے بارے میں اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بننا چاہیئے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آ سکیں۔ مزیدبرآں، سب سے اہم بات یہ کہ اِن قرضوں کا پورا پورا حساب ہونا چاہیئے کہ یہ خطیر قرضے کہاں کہاں خرچ ہوئے، جنھیں اُتارتے اُتارتے کئی نسلیں قبروں میں اُتر جائیں گی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل ڈکٹیٹر پرویز مشرف، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے ادوار کے تجارتی اعداد و شمار سے واضح طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بہتر ہے، جس کی پچھلی وفاقی حکومت کی کارکردگی، پرویز مشرف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں سے بدرجہا بہتر رہی ہے۔

برین واشڈ دولے شاہی چوہو! اب بھی ہوش میں آ جاؤ، آمروں اور ان کے جمُوروں کی بجائے پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے قوم و ملک کے دُشمنوں کو پہچانو اور وطنِ عزیز کو مزید نقصانات سے بچاؤ۔ مت بھولو کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے جو ایٹم بم، میزائیل ٹیکنالوجی اور آئین کی معمار ہونے کے ساتھ ساتھ سفارتکاری، صحت، تعلیم اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں بھی سب آمرانہ اور جمُورا حکومتون کی مجموعی کارکردگی سے کئی گنا آگے ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جُھوٹے پروپیگنڈے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی بدترین سیاسی جماعت کے طور پر مشہور ہے۔

بشکریہ: اردو الرٹ

logo-new